چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق بِل صدر نے پارلیمان کو واپس بھیج دیا
چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق بِل صدر نے پارلیمان کو واپس بھیج دیا
ہفتہ 8 اپریل 2023 9:10
صدر کے مطابق بل کی درستگی، جانچ پڑتال اور دوبارہ غور کرنے کے لیے واپس کرنا مناسب ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)
پاکستان کے صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور شدہ سپریم کورٹ بل پر دستخط کرنے کے بجائے نظرِثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا ہے۔
سنیچر کو ایوانِ صدر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر عارف علوی نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بِل 2023 آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا ہے۔
بیان کے مطابق صدر عارف علوی نے بِل واپس بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔
’بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس بِل کی درستگی، جانچ پڑتال اور دوبارہ غور کرنے کے لیے واپس کرنا مناسب ہے۔‘
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپیل، ایڈوائزری، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے، مجوزہ بِل آرٹیکل 184 تین، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے۔
صدر کے مطابق مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے۔ ’یہ خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے مگر کیا اس مقصد کو آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے؟‘
صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جا سکتی۔ ’آئین ایک اعلیٰ قانون ہے، قوانین کا باپ ہے۔‘
انہوں نے بِل واپس بھیجتے ہوئے کہا کہ ’آئین کوئی عام قانون نہیں، بلکہ بنیادی اصولوں، اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے۔ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کے لیے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔‘
صدر عارف علوی کے مطابق ’آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980 بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی۔ سپریم کورٹ رولز 1980 پر اُسی سال سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔‘
صدر مملکت نے کہا کہ جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی، خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے۔ ’ریاست کے تین ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت آئین نے ہی کی ہے۔‘
عارف علوی نے کہا کہ فورتھ شیڈول کے تحت ’سپریم کورٹ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے۔ بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ بل کے ان پہلوؤں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘