یمن کی حکومت کے ایک عہدیدار نے عرب نیوز کو بتایا کہ یہ وفود حوثیوں کو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کی طرف سے منظور شدہ امن معاہدے کا مسودہ فراہم کریں گے۔
سعودی حکام کی جانب سے تیار کردہ تجاویز میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں چھ ماہ کے لیے جنگ بندی کی توسیع، اقوام متحدہ کی سرپرستی میں حوثیوں اور یمنی حکومت کے درمیان براہ راست بات چیت اور دو سال کی عبوری مدت کی تجویز دی گئی ہے۔
مجوزہ امن معاہدے کی اس دستاویز میں حوثیوں کے زیرِکنٹرول ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پر سے پابندیاں ہٹانے، حوثیوں کے زیرِکنٹرول علاقوں میں سرکاری ملازمین کو معاوضہ دینے اور تیز اور دیگر صوبوں میں سڑکیں کھولنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے یمن کی صدارتی قیادت کی کونسل نے امن کے لیے سعودی خیالات کی حمایت کی لیکن اس بات پر زور دیا کہ حوثیوں کے ساتھ کسی بھی بات چیت کا نتیجہ مختصر مدت کی جنگ بندی کے بجائے ایک جامع اور دیرپا امن معاہدے کی صورت میں نکلنا چاہیے، اور زور دیا کہ یہ یقینی بنانا ہوگا کہ حوثی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔
صنعا میں مذاکرات کے لیے دونوں وفود کی آمد اس اعلان کے ساتھ ہوئی کہ سعودی عرب نے حوثیوں ملیشیا کے 13 قیدیوں کو رہا کر دیا ہے اس کے بدلے میں ایک سعودی قیدی کو رہا کیا گیا۔
اسی طرح یمنی وزیر خارجہ احمد عواد بن مبارک نے کہا کہ سعودی ایران امن معاہدے نے یمن میں امن کی کوششوں میں تیزی لائی ہے اور حوثیوں کو نازک مسائل کو ’سنجیدگی‘ سے حل کرنے پر آمادہ کیا ہے۔
یمن کے وزیر خارجہ نے کہا کہ حوثیوں نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مفاہمت کے بعد اپنے طرز عمل میں تبدیلی کرتے ہوئے اپنے مخالفین کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا فیصلہ کیا۔
قبل ازیں حوثیوں نے پہلے قیدیوں کی رہائی کی اپیلوں اور تجاویز پر عمل کرنے سے انکار کیا تھا۔
یمن کے وزیر خارجہ کے مطابق ’اس بار، پہلی بار، ہم نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک سنجیدہ نقطہ نظر کا مشاہدہ کیا، جسے ہم ایک مثبت پیشرفت کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
احمد عواد بن مبارک نے کہا کہ حوثیوں نے بھی تیل اور گیس کے ذخائر والے شہر مارب اور دیگر یمنی شہروں پر قبضہ کرنے میں ناکامی کے بعد امن کی طرف رجوع کیا۔ انہوں نے ایران پر بھی زور دیا کہ وہ حوثیوں کی فوجی حمایت بند کرے اور یمن میں امن کو فروغ دے۔
’یمن یہ ظاہر کرنے کے لیے بہترین جگہ ہے کہ ایران اپنے علاقائی توسیع پسندانہ اہداف کو ترک کر رہا ہے۔‘