یوم ِ تاسیس کے پروگرام میں فرید خان نے قائم مقام منتظمِ انجمن کے فرائض انجام دیئے
- - - - - - - - - -
رپورٹ: قدسیہ ندیم لالی۔دمام
- - - - - - - - -
’’اُردو ٹوسٹ ماسٹرز کلب، دمام میں قائم ہونے والا دنیا کا پہلا ٹوسٹ ماسٹرز انٹرنشنل اردو کلب ہے جو اردو زبان سے محبت کے ساتھ اردو کی ترویج اور اردو زبان کی حُرمت کا داعی ہے۔ سعودی عرب کے شہر دمام میں ٹوسٹ ماسٹرز انٹرنیشنل کا پہلا اردو کلب ڈاکٹر شیخ شکیل انجم کی بصیرت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ آج یہ کارواں ایک مضبوط قلعے کی صورت نظر آتا ہے۔ 5 سالہ جشن اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام تھا جس میں ادب و ثقافت کے تمام رنگ ایک ساتھ موجزن تھے۔ مقامی کمپاؤنڈ کے وسیع ہال کو اردو ٹوسٹ ماسٹرز کلب کے معتمد فرید خان، ان کی اہلیہ مسرت خان جو مقامی اسکول میں شعبہ آرٹ کی نگراں ہیں اوران کے فرزند فرحان فرید ،فرقان فرید و دختر سکینہ فرید نے نہایت نفاست اور خوبصورتی سے معروف اشعار و مزاحیہ اقتباسات سے سجایا ہوا تھا۔ سابق صدر اردو کلب اور ایریا 25کے منتخب ڈائریکٹرضیاء الرحمٰن صدیقی ، حالیہ صدر محمد سلیم حسرت، چیمپیئن مقرر شیراز مہدی ضیاء، اردو کلب کے نائب صدر ،رابطہِ عامہ ،مسعود جمال اور نائب صدر ( تعلیم ) محمد انس الدین کی مشترکہ کاوشیں اس پروگرام کی کامیابی میں میخیں ثابت ہوئیں۔ یوم ِ تاسیس کے پروگرام میں فرید خان نے بحیثیت قائم مقام منتظمِ انجمن کے فرائض انجام دیتے ہوئے پروگرام کا آغاز کیا۔ صدرِ کلب محمد سلیم حسریت نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا ۔ نظامت کے فرائض شیراز مہدی ضیا ء نے نہایت مہارت اور عمدگی سے انجام دئیے۔
سینیئر رکن اور ڈسٹرکٹ کے کلب گروتھ ڈائریکٹر شیخ شکیل انجم جن کو اردو کلب کا’’ علامہ اقبال‘‘ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے سب سے پہلے اردو کلب کا خواب نہ صرف دیکھا بلکہ اپنا مشن سمجھتے ہوئے اْس کی بنیاد بھی رکھی۔ منکسر المزاج و مضبوط ارادوں کے مالک ڈاکٹر شیخ شکیل انجم نے جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں، اپنے خطاب میں انتہائی مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ میں ربِ جلیل کا شکر گزار ہوں کہ اپنے سامنے اردو کلب کو پروان چڑھتا دیکھ رہا ہوں جس میں ہر رکن کی محنت اور لگن شامل ہے۔ انگلش ٹوسٹ ماسٹرز کے سینیئر رکن عبداللہ رضوی پروگرام کے مہمانِ خصوصی تھے جنہوں نے اپنے خطاب میں اردو ِکلب کے تمام اراکین کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ اردو کلب اپنی بہترین حکمت ِ عملی سے جس مقام پر آگیا ہے اب وہ وقت دور نہیں کہ اسی شہر میں اردو کلب کی مزید شاخیں وجود میں آئیںگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان و پاکستان سے تعلق رکھنے والے اراکین جس تندہی سے کلب کی ترقی و ترویج میں مصروفِ عمل ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔
سابق صدر اردو کلب اور ایریا52 کے منتخب ڈائریکٹر ضیاء الرحمٰن صدیقی نے مختصراً اردو کلب کی بنیاد و آغاز کا ذکر کرتے ہوئے تمام بانی اراکین کو سلامِ تشکر پیش کیا اور آنے والے وقت کو اردو ِکلب کے دور سے منسوب کیا۔ جشنِ تاسیسی پروگرام کی مناسبت سے اردو ِکلب کے 5برس کی تکمیل پر صدرِ ِکلب محمد سلیم و بانی رکن ڈاکٹر شیخ شکیل انجم نے کیک کاٹا۔ پروگرام کو ادب و ثقافت کے شعبوں سے مزین کیا گیا تھا اور پروگرام بنیادی طور سے تین ادوار پر مشتمل تھا لیکن حاضرین کی یکسانیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ترتیب کچھ اس نوع سے رہی: تعلیمی نشست میں محمد سلمان نے تیار شدہ تقریر بعنوان ’’اردو کا سافٹ ویئر‘‘ پیش کی جو ان کا ایڈوانس منصوبہ تھا۔ تقریر کے تجزیہ کار سینیئررکن ، ڈی ٹی ایم آصف اختر تھے، جنہوں نے اپنے تجزیے میں کہا کہ بلاشبہ محمد سلمان نے آج ایک شو کیس تقریر پیش کی ہے اور انہوں نے یہ فن خطابت اردو کلب سے سیکھا ہے۔ آج ہم ان کو ایک بہترین مقرر کے روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے محمد سلمان کو ایڈوانس منصوبہ کامیابی سے مکمل کرنے پر مبارک باد دی۔
لسانی تجزیہ کار اردو کلب کے سابق صدر و یریا ڈائریکٹر75 سید منصور شاہ نے اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے اسٹیج پر استعمال ہونے والے اردو کے مستحسن الفاظ و اغلاط کی نشاندہی کر کے اپنا منسب بہت عمدگی سے نبھایا۔ منطقہ شرقیہ کے معروف طلبہ نواز ، جارج خان نے طبلے پر سنگت دی اور اْن کی شاگرد گوپیکا سْنیل نے کلاسیکی راگ اور نیم کلاسیکی غزلیں پیش کر کے ایک سماں باندھ دیا۔محمد ایوب صابر جو ، شاعر ، ادیب ہونے کے ساتھ اب اردو کلب کے نئے رکن بھی ہیں، انہوں نے اپنا مزاحیہ مضمون ’’ میں شاعر کیسے بنا‘‘ پیش کر کے حاضرین کی بھر پور توجہ اور داد حاصل کی۔ نثری حصے کو جاری رکھتے ہوئے اردو کلب کی رکن و شاعرہ محترمہ غزالہ کامرانی نے معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی کتاب "زرگزشت" سے ایک دلچسپ اقتباس سنایا جو زبان و بیان کی چاشنی سے بھر پور تھا۔ حاضرین ِ محفل بے حد محظوظ ہوئے اور بھر پور داد دی۔ 17 ماہ قبل وجود میں آنے والے میوزکل گروپ’’ جسٹ میوزک کلب‘‘ ہے جس میں ضیاء الرحٰمن صدیقی ، رباب فاطمہ رضوی ، سلمان شاہ ، حارث حسن ، مسکان بھاٹیہ ، سنتوش سوریہ ونشی ، نِتن پچیسیہ ، اروند کمار ، سمیر کرہاڈکر ، پردیپ راج ہنس اور ورن پچیسیہ شامل ہیں۔’’جسٹ میوزک کلَب‘‘ کے فن کاروں نے انفرادی اور اجتماعی سنہرے و رو پہلے گیت سنا کر محفل کو پر کیف بنا دیا۔ اْردو ٹوسٹ ماسٹرز کلب کی نائب صدر رکنیت ، شاعرہ ، ادیبہ ، محترمہ قدسیہ ندیم لالی نے اپنی سنجیدہ غزل:
’’کون جانے یہ فلسفہ کیا ہے
کام اچھا ہے کیا ، برا کیا ہے‘‘
پیش کی اور حاضرین ِ محفل کی بھر پور توجہ و داد حاصل کی ۔
اُردو ٹوسٹ ماسٹرز کلب کے نوجوان و ہونہار رکن انس الدین جو اردو کلب کے نائب صدر تعلیم بھی ہیں ،انہوں نے مزاحیہ نظم سنائی اور محفل کو زعفران زار بنا دیا۔ اسی سلسلے کوآگے بڑھاتے ہوئے انس غیاث جو اردو ِکلب کے رکن اور سابق نائب صدر رابطۂ عامہ ہیں ، ایک انتہائی دلچسپ خاکہ پیش کیا جو فی زمانہ گیت و نغموں کی توڑ جوڑ کے تناظر میں تھا۔ محفل میں قہقہوں و تالیوں کی گونج تا دیر رہی۔ رات دھیرے دھیرے بھیگ رہی تھی اور ادبی وثقافتی محفل اپنے عروج پر پہنچی تو’’ جسٹ میوزک کلب‘‘ کے تمام اراکین نے معروف گیتوں پر مشتمل’’میڈلے‘‘ پیش کیا۔ اردو کلب کے صدر سلیم حسرت نے الواحہ کلب کے آلوک کمار اور ڈسکوری کلب کے پراگ پاٹِل ،المجدوعی کلب کے اراکین اور فینکس ماسا کلب کی صدر محترمہ پروین اور معروف شاعر افضل خان ،سماجی کارکن سید ابرار حسین ، ’’جسٹ میوزک کلب‘‘ کے سلمان شاہ اور ورن پچیسیہ ، سید صفی اللہ اور حاضرینِ محفل کا شکریہ ادا کیا جن کی بدولت یہ تاسیسی پروگرام ایک تاریخ رقم کر سکا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ :
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے