خواتین کی اکثریت حسد اور رقابت میں دوسروں کی زندگی اجیرن کردیتی ہیں
- - - - - -- - - - - - - - - -
تسنیم امجد۔ریاض
- - - - - - - - - - - - -
زبان کی لغزش سے مضبوط رشتوں اور تعلقات میں دراڑیں آجاتی ہیں۔ بدقسمتی سے خواتین کا وجود جہاں تصویر کائنات میں رنگ بھرتا ہے وہاں زبان کے حوالے سے منفی سوچ کا حامل بھی ہے۔ کسی کی خوشی یا کامیابی پر حسد کے غلبے تلے یہ کیا کچھ بول جاتی ہیں، اس کی خبر شاید ان کو خود بھی نہیں رہتی جبکہ اس حوالے سے دین اسلام کی تعلیمات عالی بالکل واضح ہیں۔ہمیں یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ اگر کسی بندے کے دل میں ایمان اور حسد ایک ساتھ ہوں تو وہ اپنے دین سے بہت دورہوتا ہے۔ زبان کا چٹخارا وقتی واہ واہ کا موجب توہے لیکن اس کے منفی اثرات یقینا جلد سامنے آتے ہیں۔ خواتین کی اکثریت حسد اور رقابت میں مبتلا ہوکر دوسروں کی زندگی اجیرن کرتے وقت یہ نہیں سوچتیں کہ مکافات عمل بھی خواہ دیر سے سہی، ہوتا ضرور ہے ۔ حال ہی میں روبی، شاپنگ مال میں ملی، اس کی شادی کو 3 ماہ ہی ہوئے تھے۔
ہم نے اسے گلے لگایا اور کچھ دیر کیلئے فوڈ کورٹ میں بیٹھنے کو کہا۔ اسے جلدی تھی لیکن ہمارے اصرار پر مان گئی۔ اس کے چہرے پر عجیب سی اداسی تھی، بولی اماں کے اصرار پر کچھ بٹن اور لیس لینے آنا پڑا ،ورنہ موڈ بالکل نہ تھا۔ تفصیل معلوم ہوئی کہ اس کا پہلا نکاح تو باقی نہیں رہاتھا، وجہ ان کی دادی کی ہٹ دھرمی بنی۔ جہیز اور شادی میں غیر ضروری رسموں کی شمولیت پر وہ بضد تھیں ، جہیز میں نقد کا تقاضا تھا۔ میرے والد ان ماننے پر تیار نہ ہوئے جبکہ وہ لوگ اچھے ہی تھے۔ لڑکے سے میری ملاقات کبھی نہیں ہوئی تھی بس فون پر رابطہ تھا۔یہ رابطہ بھی اس وقت ہوتا تھا جب مجھے کمپیوٹر کے بارے میں کچھ پوچھنا ہوتا تھا۔ والدین کی دعاؤں سے جلد ہی دوسرا رشتہ آیا اور عامر میری زندگی میں آگئے۔ زندگی ایک بار پھر نارمل ہوگئی لیکن گزشتہ دنوں سے عامر کے رویے میں اچانک تبدیلی محسوس ہو رہی ہے ۔
اچھا بھلا موڈ خراب ہوجاتا ہے۔ آج صبح بھی مال آنے کا پوچھا تو ناشتہ چھوڑ کر چلے گئے۔ اماں یعنی میری ساس یہ سب دیکھ رہی تھیں، کہنے لگیںکہ فکر نہ کرو بیٹی ،میں سب ٹھیک کرلوںگی۔ دراصل کسی خاتون کا انہیں اکثر فون آتا ہے، نام مجھے یاد نہیں آرہا ، وہ الٹی سیدھی باتیں کرتی ہے۔ عامر نے مجھے بتایا کہ تم مال جاؤ، یہ کہہ کر روبی رونے لگی۔ ہم نے اسے تسلی دی اور سوچنے لگے کہ کوئی خوشحال ہو، خوش شکل ہو ، خوش لباس ہو، ذہین ہو یا اپنے حلقۂ احباب میں مقبول ہو تو خالی برتن کی طرح آواز دینے و الی خواتین سے یہ بالکل برداشت نہیں ہوتا۔ وہ اپنی ہی صنف کی نیک نامی اور شرافت کی دھجیاں بکھیر نے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی ہیں ۔ من گھڑت باتیں، برائیاں یا خامیاں اس انداز میں بیان کی جاتی ہیں کہ سننے والے کو یقین ہوجاتا ہے ۔ اس طرح نفرتوں کے بیج نہایت مہارت سے بودیئے جاتے ہیں۔ کاش ایسا تخریبی عمل کرنے والا یہ سمجھ سکے کہ وہ دراصل اپنے راستے میں کانٹے بچھارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حسد کسی ذاتی محرومی کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ ایسے لوگ کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتے ۔انہیں یہ بات تکلیف دیتی ہے کہ دوسرے کو فائدہ کیوں ہورہا ہے۔
اس طرح ان کے بارے میں زبان کاغلط استعمال انہیں عارضی خوشی دیتا ہے۔ اس منفی عمل سے پرہیز کرنا چاہئے۔ مثبت جذبے اور سوچ زندگی کو خوبصورت بنا دیتے ہیں۔ منفی جذبات دوسروں کیلئے ہی نہیں بلکہ انسان کے اپنے لئے بھی بربادی کاباعث بنتے ہیں۔ جلد ہی وہ نا پسندیدہ شخصیت شمار ہونے لگتا ہے لیکن اس عادت یعنی لت سے چھٹکارا ممکن نہیںہوتا۔ یہ کسی نشے کی طرح زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ کاش مسابقتی رجحان مثبت ہو اور دوسروں کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جائے اور حاسدانہ جذبات کو ابھرنے سے پہلے ہی دبا دیا جائے۔ یہ جذبہ انسان کو اندرہی اندر سلگاتا رہتا ہے۔ اللہ کریم نے دنیا کو خوبصورت اور حسین رنگوں سے سجایا ہے۔ اسے اپنے بدصورت رویوں سے بدنما نہیں کرنا چاہئے۔ انسانی شخصیت اچھائی اور برائی کا مجموعہ ہے ، کسی کی اچھائیوں پر ہی نظر رکھی جائے تو یقینا قو س ِقزح کے رنگ ہمارے گرد بھر جائیں گے۔
ہم خواتین ہی منفی رویوں کا سدباب کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ اکثر سنا جاتا ہے کہ میں اکیلی کیا کرسکتی ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک چراغ سے کئی چراغ جلتے ہیں۔ ابتداء اپنے گھر سے کرنی چاہئے۔ بچوں، خاص کر لڑکیوں کو بچپن ہی سے منفی رویوں پر ٹوکنا ضروری ہے۔ تعلیمی ادارے میں آپس کا مقابلہ بھی مثبت ہونا چاہئے۔ زندگی ایک قیمتی شے ہے ،اس کی قدر کرنی چاہئے۔ہر دلعزیزی کیلئے منفی کاموں سے گریز اور مثبت کومہمیزکرنا شعار بنالیجئے۔ ہر خاتون خود کو رول ماڈل ثابت کرنے کی کوشش کرے تو یقینا کامیاب ہوگی۔ زندگی میں غلطیاں اور خطائیں ہو ہی جاتی ہیں ان کی بنیاد پر باہمی نفرتوں کو پالنا ہرگز درست نہیں۔ ہمارے اچھے عمل نفرت اور انتقام کی بجائے محبت کو جنم دیں گے جو آپ کی غیر موجودگی میں بھی خوشبو دار پھول ثابت ہونگے۔ یہ کائنات گردش لیل و نہار کی پابند ہے اور اسی پابندی میں اس کی بقا ء ہے۔ اسی طرح انسان کی بقاء بھی گردشِ حیات سے سمجھوتہ کرنے میں ہے۔