Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملک بھر میں ایک ہی دن انتخابات، مناسب حکم جاری کریں گے: چیف جسٹس

کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی (فوٹو: اے ایف پی)
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات کروانے کے معاملے پر عدالت تحریری فیصلے میں مناسب حکم جاری کرے گی۔ 
جمعرات کو مقدمے کی سماعت کے اختتام پر اپنے ریمارکس میں انہوں نے کہا کہ ’ہم نہ کوئی ہدایت جاری کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹائم لائن جاری کر رہے ہیں۔ اس کیس کا تحریری فیصلہ جاری کریں گے، عدالت مناسب حکمنامہ جاری کرے گی۔‘ 
سماعت سے قبل ملک بھر میں اس بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ عدالت کوئی بڑا فیصلہ سنائے گی۔ 
قبل ازیں 20 اپریل کو ہونے والی سماعت کے موقع پر عدالت نے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کے ذریعے انتخابات کی تاریخ طے کرنے اور معاملہ حل کرنے کا کہا تھا۔ 
تاہم جمعرات کو جب چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل عدالت عظمٰی کے تین رکنی بینچ نے سماعت شروع کی تو حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین سینیٹ نے مذاکرات کے لیے ایوان بالا میں حکومت اور اپوزیشن سے چار، چار نام مانگے ہیں۔ 
انہوں نے عدالت کو مذاکرات پر پیش رفت سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’19 اپریل کو حکومت اور اپوزیشن میں پہلا رابطہ ہوا تھا جبکہ 25 اپریل کو ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر سے ملاقات ہوئی۔‘ 

سپریم کورٹ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے حوالے سے پہلے ہی فیصلہ سنا چکی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

’چیئرمین سینیٹ نے ایوان بالا میں حکومت اور اپوزیشن کو خطوط لکھے ہیں اور چار، چار نام مانگے ہیں۔‘ 
 اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’چیئرمین سینیٹ سے کس حیثیت سے رابطہ کیا گیا؟‘ 
جس  کے بعد اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سینیٹ وفاق کی علامت ہے اس لیے چیئرمین سینیٹ کو کہا گیا ہے۔ 
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ نہ حکومت کے نمائندے ہیں نہ اپوزیشن کے، حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود قدم اٹھاتی۔ 
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیے، صرف حل بتائیں۔‘ 
 واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے  تین رکنی بینچ نے چار اپریل کو حکومت کو حکم دیا تھا کہ 27 اپریل تک انتخابات کے لیے 21 ارب روپے کی فراہمی کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائے لیکن حکومت نے رقم جاری نہیں کی اور معاملہ قومی اسمبلی میں لے گئی جہاں فنڈز کے اجرا کی قرارداد مسترد کر دی گئی۔  

سپریم کورٹ نے الیکشن کے لیے سٹیٹ بنیک کو 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم گذشتہ سماعت پر چیف جسٹس نے پنجاب میں 14 مئی کو ہی الیکشن کے فیصلے پر عملدرآمد پر اصرار کیا تھا اور کہا تھا کہ الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ تبدیل نہیں ہو گا۔ 
بدھ کو قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ عدالتی فیصلوں سے پارلیمنٹ کی توہین ہو رہی ہے اور یہ معاملہ استحقاق کمیٹی کے سپرد کیا جانا چاہیے۔ اس موقع پر وزیرستان سے منتخب رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پورے ایوان کو استحقاق کمیٹی کا درجہ دے کر معاملہ یہاں پر زیر بحث لانا چاہیے۔ 
جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے اسی روز اتحادیوں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ پنچایت کا کردار ادا نہیں کر سکتی اور اس کا کام آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے۔ 

وزیراعظم نے اتحادیوں کے اجلاس میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ پنچایت کا کردار ادا نہیں کر سکتی (فوٹو: اے پی پی)

تاہم جمعرات کے روز سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت مذاکرات پر مجبور نہیں کر سکتی اور حکومت اگر اس بارے میں سنجیدہ ہے تو اس کو خود کوئی قدم اٹھانا چاہیئے تھا۔ 
انہوں نے کہا کہ ’عدالت صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تا کہ تنازع کا حل نکلے،چیئرمین سینٹ اجلاس بلائیں گے، اس میں بھی وقت لگے گا ۔‘ 
اس موقع پر دلائل دیتے ہوئے سینیٹر فارق ایچ نائیک نے کہا کہ مذاکرات سیاسی جماعتوں کی کمیٹیوں نے ہی کرنے ہیں۔ اور وہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی ایشو ہے اس لیے سیاسی قائدین کو ہی مسلۂ حل کرنے دیا جائے۔’ 
سیاست کا مستقبل سیاستدانوں کو ہی طے کرنے دیا جائے۔‘ 
پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے اپنے دلائل میں کہا کہ تحریک انصاف نے انہیں، فواد چوہدری اور علی ظفر کو مذاکرات کے لیے نامزد کیا تھا لیکن اسد قیصر کے بتانے کے باوجود حکومت نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا جبکہ چیئرمین سینیٹ نے گذشتہ رات ان سے رابطہ کیا۔ 
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن سینیٹ کمیٹی کے ذریعے مذاکرات ایک تاخیری حربہ ہے۔ 

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ان کی پارٹی مذاکرات کے لیے تیار ہے (فائل فوٹو: پی ٹی آئی سوشل میڈیا)

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر رولز کی خلاف ورزی کی گئی۔ زیر سماعت معاملے کو پارلیمان میں زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ پارلیمان میں دھمکی آمیز لہجے اور زبان سن کر شرمندگی ہوئی۔‘ 
’پارلیمان میں کہا گیا کہ توہین پارلیمنٹ ہوئی ہے، حکومت نے آئین اور عدالتی فیصلے کی خلاف ورزی کا فیصلہ کر رکھا ہے۔‘ 
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ سیاسی باتیں ہیں، ہم مقدمے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘ 
فارق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی چیئرمین سینیٹ کو نام دے تو وہ کل ہی بیٹھنے کو تیار ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مذاکرات کے معاملے میں صبر اور تحمل سے کام لینا ہو گا۔ 
فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کو سینیٹ میں مذاکرات پر آمادہ کیا۔ 
 چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ مذاکرات کے لیے عدالت کا کوئی حکم نہیں صرف تجویز ہے۔ توقع تھی کہ آج دونوں فریقین کی ملاقات ہو گی۔ 
’ لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے۔ قومی مفاد اور آئین کے تحفظ کے لیے اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے ویسے ہی چلے گا۔‘   

شیئر: