Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں: چیف جسٹس 

عدالتی فیصلے کے باوجود پارلیمان نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بِل منظور کر لیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی اعلٰی عدلیہ نے ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023ء‘ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران بل سے متعلق ہونے والی پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔  
منگل کو دوران سماعت عدالت نے فل کورٹ یا سات سینیئر ترین ججز پر مشتمل بینچ کی تشکیل اور ایک پر عدالتی حکم امتناع ختم کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کر دیا ہے۔ سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں۔‘ 
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے 8 رکنی لارجر بینچ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اظہر حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید لارجر بینچ کا حصہ ہیں۔ 

’عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے‘

دوران سماعت عدالت نے کیس کے تمام فریقوں سے تحریری جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’گزشتہ حکم نامہ عبوری نوعیت کا تھا جمہوریت آئین کے اہم خدو خال میں سے ہے۔ آزاد عدلیہ اور وفاق بھی آئین کے اہم خدوخال میں سے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ عدلیہ کا جزو تبدیل ہوسکتا ہے؟ عدلیہ کی آزادی بنیادی حق ہے۔ اس حوالے سے یہ مقدمہ منفرد نوعیت کا ہے۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’مقدمے پر فریقین سے سنجیدہ بحث کی توقع ہے، لارجر بینچ کو بہترین معاونت فراہم کرنی ہو گی۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا قانون ہے۔ یہ ریاست کے تیسرے ستون کے بارے میں ہے۔‘

سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق بل پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ فوٹو: اے ایف پی

عدالت نے سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل پر پارلیمانی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے قائمہ کمیٹی میں ہونے والی بحث کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔  

فل کورٹ تشکیل دیا جائے، پاکستان بار کونسل کی استدعا 

پاکستان بار کونسل کی جانب سے حسن رضا پاشا نے عدالت کو بتایا کہ ’پاکستان بار نے ہمیشہ آئین اور عدلیہ کے لیے لڑائی لڑی ہے، مناسب ہوگا اگر اس مقدمے میں فل کورٹ تشکیل دیا جائے۔ بینچ میں سات سینیئر ترین ججز شامل ہوں تو کوئی اعتراض نہیں کر سکے گا۔ بینچ کے ایک رکن کے خلاف 6 ریفرنس دائر کیے ہوئے ہیں۔‘
اس موقع پر پاکستان بار کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو بینچ سے الگ کرنے کی استدعا کر دی۔ 
سپریم کورٹ نے فل کورٹ بنانے کی استدعا فی الوقت مسترد کرتے ہوئے قانون پر عمل درآمد سے روکنے کے حکم میں توسیع کردی۔ 
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 7 سینیئر جج اور فل کورٹ بنانا چیف جسٹس کا اختیار ہے، افتخار چوہدری کیس میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ ریفرنس صرف صدر مملکت دائر کرسکتے ہیں۔
’کسی جج کے خلاف ریفرنس اس کو کام کرنے سے نہیں روک سکتا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے آنے تک جج کو کام کرنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں بھی عدالت نے یہی فیصلہ دیا تھا۔‘ 

صدر عارف علوی نے ابھی تک متعلقہ بل پر دستخط نہیں کیے۔ فوٹو: اے ایف پی

سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا کہ ’شکایات ججز کے خلاف آتی رہتی ہیں۔ مجھ سمیت سپریم کورٹ کے اکثر ججز کے خلاف شکایات آئی ہیں۔ سیاسی معاملات نے عدالت کا ماحول آلودہ کر دیا ہے۔ سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں۔ انتخابات کے مقدمے میں بھی کچھ ججز کو نکال کر فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ججز کا فیصلہ عدالت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہر ادارہ سپریم کورٹ کے احکامات پر عملدرآمد کا پابند ہے۔‘
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے بار کونسل کے وکیل حسن رضا پاشا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’پاشا صاحب آپ نفیس آدمی ہیں۔ اپنے ارد گرد سے معلوم کرائیں آپ کے لوگ کس کو فل کورٹ کہتے ہیں۔ سپریم کورٹ بار نے ادارے کا تحفظ کرنا ہے۔ ججز نے آنا ہے اور چلے جانا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے ججز کا احترام کرنے کے بجائے انتخاب کیا جاتا تو پھر آپ انصاف نہیں چاہتے۔‘ 

حکم امتناع واپس لینے کی استدعا مسترد 

دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان نے ایکٹ کے حوالے سے عدالتی حکم امتناع ختم کرنے کی استدعا کی۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ’پہلے سمجھا تو دیں کہ قانون کیا ہے اور کیوں بنا؟ اٹارنی جنرل کی جانب سے استدعا کی گئی کہ عدالت بینچ بڑھانے پر غور کرے۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کہ بینچ کی تعداد کم بھی کی جا سکتی ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کی حکم امتناع واپس لینے کی استدعا مسترد  کردی۔ 
بعد ازاں عدالت نے پارلیمانی کارروائی کے ساتھ ساتھ قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی کارروائی کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے فریقین کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کی اور سماعت پیر آٹھ مئی تک ملتوی کر دی۔

شیئر: