Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کمپنیوں کی جانب سے گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیر کی وجہ کیا؟

خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ کار مینوفیکچرر خود ریگولیٹرز بن چکے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین نور عالم خان نے کار مینوفیکچرنگ کمپنیوں کی جانب سے صارفین کو گاڑیاں تاخیر سے ڈیلیور کرنے پر سخت تنقید کی ہے۔
بدھ کو پی اے سی کے اجلاس میں نور عالم خان کا کہنا تھا کہ ’کار مینوفیکچرنگ کی اجارہ داری ختم کرنا ہو گی۔
بدھ کو اسلام آباد میں ہونے والے پی اے سی کے اجلاس میں کار مینوفیکچرز کے نمائندوں کی عدم شرکت پر بھی برہمی کا اظہار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’آج ہم نے کار مینوفیکچرنگ پر بات کرنا تھا لیکن نہ سربراہان آئے ہیں، نہ جواب دے رہے ہیں اور نہ ہی وہ آڈٹ سے تعاون کر رہے ہیں۔‘
نور عالم خان نے کار مینوفیچرنگ کمپنیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ صرف بمپرز بنا کر مینوفیکچرر بنے پھر رہے ہیں۔‘

کار مینوفیکچرز خود ریگولیٹر بن چکے ہیں

اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’کار مینوفیکچرر خود ریگولیٹرز بن چکے ہیں۔ ان کو صارفین کو کھلے عام لوٹنے کی اجازت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گاڑیوں میں وہ ٹیکنالوجی استعمال ہی نہیں ہو رہی جو دنیا میں ہو رہی ہے۔
خواجہ آصف پی اے سی کے رکن نہیں ہیں۔ جب دیگر اراکین نے انہیں اجلاس میں بلائے جانے پر سوال اٹھایا تو چیئرمین نور عالم خان نے کہا کہ ان کے کار مینوفیچرنگ کے حوالے سے کچھ تحفطات تھے، انہیں رکن اسمبلی کی حیثیت سے بلایا لیکن اس پر معذرت خواہ ہوں۔
نور عالم خان نے مزید کہا کہ ’کار مینوفیکچرنگ کے شعبے سے اجارہ داری کو ختم کیا جائے۔ گاڑیوں والوں نے لوگوں سے آٹھ سال سے ایڈوانس پیسے لے رکھے ہیں۔‘
ایل سیز کا معاملہ تو آٹھ ماہ سے چل رہا ہے۔ لوگوں سے ایڈوانس کروڑوں روپے لے لیے۔ اب یہ ان سے اور پیسے مانگ رہے ہیں۔‘
چیئرمین پی اے سی نے کار اسمبلرز کمپنیوں کے سربراہان کو طلب کر لیا ہے۔

چیئرمین پی اے سی نے کار اسمبلرز کمپنیوں کے سربراہان کو طلب کر لیا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

دوسری جانب پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ آڈٹ کا نہیں ہے تاہم ہم آڈٹ حکام سے تعاون کر رہے ہیں۔
پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل عبدالوحید شیخ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے پی اے سی کے گذشتہ اجلاس میں شرکت کی تھی۔ اس اجلاس میں کمپنیوں کے سی ای اوز نے جانا تھا لیکن شاید وہ بیرون ملک سفر کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔‘

حکومت کا تو کوئی نقصان نہیں ہو رہا

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے کمپنیوں کا آڈٹ کرانے کے حکم پر عبدالوحید شیخ کا کہنا تھا کہ ’ہم نے آڈٹ حکام سے میٹنگ کے لیے رابطہ کیا لیکن وہ آئے نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’یہاں حکومت کے ٹیکس کے نقصان کا معاملہ نہیں ہے۔ آڈٹ تو سرکار کے ٹیکس کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہوتا ہے۔ یہاں حکومت کا کوئی نقصان نہیں ہو رہا۔ ہم تو ان لوگوں کو بھی پیسے دیتے ہیں جن کی گاڑیوں کی ڈیلیوری تاخیر سے ہوتی ہے۔‘
اگر مارکیٹ اکانومی میں اگر کوئی شخص مخصوص وقت کے لیے پیسہ لگاتا ہے تو یہ اس کی مرضی سے ہوتا ہے۔ مطلوبہ وقت میں آرڈر نہ ملے تو ہم اسے کائیبور پلس تین فیصد ادا کرتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’آج کل تو ڈیمانڈ بھی کم ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ گاڑیاں تاخیر سے مل رہی ہیں، درست نہیں ہے۔ آج کل ہم لوگوں کو ڈسکاؤنٹ پر گاڑیاں بیچ رہے ہیں۔‘
چیئرمین پی اے سی نور عالم خان کی جانب سے اجلاس میں صرف بمپرز بنانے کی بات پر ان کا کہنا تھا کہ ’بمپرز بنا کر مینوفیکچرزز بننے کی بات کم علمی پر مبنی ہے۔ پتا نہیں انہیں یہ معلومات کس نے دیں۔ میں اس پر کیا کہوں۔ اس وقت اڑھائی تین ہزار وینڈرز ہیں جو مختلف آلات بنا رہے ہیں۔‘
انہوں نے پاکستان میں کاریں بنانے والی بڑی کمپنیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پچھلے ماہ ہنڈا کی ایک بھی گاڑی فروخت نہیں ہوئی۔ سوزوکی بند پڑا ہے اور انڈس موٹرز اور دیگر کا بھی یہی حال ہے۔‘
نچلی سطح پر کام کرنے والے ہزاروں افراد کی نوکریاں ختم ہو چکی لیکن یہ کہتے ہیں کہ گاڑیاں نہیں مل رہیں۔ جو اس وقت ملک کے حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں۔‘

آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ایچ ایم شہزاد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کوئی مینوفیکچرنگ پلانٹ نہیں ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آٹوموٹیو مینوفیکچرز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل نے مزید بتایا کہ لگ بھگ ایک برس سے امپورٹ بھی بند ہے۔ ایل سیز نہیں کھل رہیں۔ زرمبادلہ کی کمی کے باعث ہم باہر سے بھی کچھ نہیں منگوا سکتے۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند ماہ میں پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتوں میں بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ دوسری جانب کئی بار کار مینوفیکچرز کو امپورٹس پر پابندی اور دیگر مسائل کے باعث اپنے پلانٹ بند کرنا پڑے۔
ملک کی دِگرگوں معاشی صورتحال میں کاریں فروخت کرنے والی نمایاں کمپنیوں سوزوکی، ٹویوٹا اور ہنڈا کی ڈیمانڈ میں کمی بھی دیکھی جا رہی ہے۔ 
آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر ایچ ایم شہزاد کا موقف بالکل برعکس ہے۔

یہاں مینوفیکچرر ہیں ہی نہیں، سب اسمبلرز ہیں

ایچ ایم شہزاد نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’یہاں کوئی مینوفیکچرنگ پلانٹ نہیں ہے۔ یہ چین، جاپان اور دیگر ملکوں سے پرزے منگوا کر کام چلاتے ہیں اور اسمبلنگ کرتے ہیں۔ سوزوکی اور ٹویوٹا کو یہاں کئی دہائیاں گزر گئیں لیکن یہ بھی اسمبلرز ہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ’یہ جو صورت حال ہے اس کا ذمہ دار انجینئرنگ ڈیوپلمنٹ بورڈ (ای ڈی بی) ہے۔ اس بورڈ میں کار اسمبل کرنے والی کمپنیوں کے لوگ بیٹھے ہیں جو پالیسیاں بنا رہے ہیں۔‘

ای ڈی بی میں عوام یا صارفین کا کوئی نمائندہ نہیں ہے۔

مقامی وینڈرز سے متعلق سوال کے جواب میں ایچ ایم شہزاد کا کہنا تھا کہ ’یہ درست نہیں کہ یہاں کوئی مقامی وینڈرز ہیں۔ ایک آٹھ بائے آٹھ کے کمرے میں بیٹھ کر میڈ اِن پاکستان کا سٹیکر پرزوں پر لگانے والے کو کیسے وینڈر کہا جا سکتا ہے۔‘

ایچ ایم شہزاد نے سوال اٹھایا کہ ’اگر ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ پرزے نہیں مل رہے تو پچھلے چھ ماہ میں گاڑیوں کی قیمیتیں کیوں بڑھائی گئی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر نے کہا کہ ’ان کمپنیوں نے جن صارفین کی گاڑیاں 2021 میں بُک کی تھیں انہیں آج تک گاڑیاں نہیں ملیں۔‘
میں تو یہ کہوں گا کہ یہ لوگوں سے بکنگ کے نام پر پیسے وصول کر کے رقوم آگے بینکوں کو سود پر دے کر اس سے مزید پیسہ بنا رہے ہیں۔‘
ایچ ایم شہزاد نے سوال اٹھایا کہ ’اگر بالفرض ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ انہیں پرزے نہیں مل رہے تو پچھلے چھ ماہ میں انہوں نے گاڑیوں کی کئی مرتبہ قیمیتیں کیوں بڑھائی ہیں۔ جب گاڑی بن ہی نہیں رہی تو قیمت میں اضافہ کیوں کیا گیا۔‘
ان کے مطابق ’اگر اس ملک میں آٹو موبائل انڈسٹری کا وجود ہوتا تو صورت حال بالکل مختلف ہوتی۔‘  

شیئر: