Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور میں کتوں کے کان اور دُم کاٹنے والا گینگ کون ہے؟

زیبا مسعود نے بتایا کہ گلبہار کے علاقے میں ایسے افراد موجود ہیں جو اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں (فوٹو: اردو نیوز)
انسانوں پر تشدد اور ظلم کی کئی داستانیں سُن چکے ہیں مگر اب تو بے زبان جانور بھی انسان کے ظلم و بربریت کا شکار ہونے لگے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں آوارہ کتوں پر تشدد اور ظلم کے درجنوں واقعات رونما ہوئے ہیں۔ نامعلوم افراد آوارہ کتوں کے بچے چوری کر کے ان کے دونوں کان اور دم کاٹ دیتے ہیں تاکہ ان کو اچھے داموں پر فروخت کیا جا سکے۔ 
اس مکروہ دھندے کا انکشاف پشاورمیں آوارہ کتوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی خاتون زیبا مسعود نے کیا جو ’لکی اینیمل پروٹیکشن شیلٹر‘ کے نام سے پناہ گاہ کی بانی ہیں۔
زیبا مسعود نے اُردو نیوزکو بتایا کہ ’گلبہار کے علاقے میں ایسے افراد موجود ہیں جو کتوں کے اس مکروہ دھندے میں ملوث ہیں یعنی وہ کتیا سے بچے چوری کر کے ان کے کان اور دم کاٹ دیتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کتوں میں جرمن شیفرڈ اور دیگر اعلٰی نسل کے کتے بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ یہ ظلم کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک منظم گینگ ہے جو ان معصوم جانوروں کو فروخت کرنے کے چکر میں یہ انتہائی غیر انسانی حرکت کر رہا ہے۔
چھوٹے لڑکے بلیڈ کی مدد سے کتے کے بچوں کی دُم کاٹ دیتے ہیں جن کی کوئی تربیت نہیں ہوئی ہوتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے متعدد بار دیکھا کہ کتوں کے جسم سے خون بہہ رہا تھا اور وہ درد سے بلبلا رہے تھے۔‘
ڈاگ شیلٹر کی بانی زیبا مسعود نے کہا کہ وہ کچھ زخمی کتّے اپنے ساتھ پناہ گاہ لائی تھیں مگر ان میں سے بیشتر ہلاک ہو گئے کیونکہ وہ بہت لاغر ہوگئے تھے۔ ’میرے شیلٹر میں ابھی پانچ کتے موجود ہیں جن کے کان اور دم کٹے ہوئے ہیں مگر وہ اب صحت مند ہیں۔‘  
انہوں نے مزید بتایا کہ روکس نامی ایک کتے کی در بھری کہانی سُن کر لندن کے ایک رہائشی نے گود لے لیا ہے جو بہت جلد بیرون ملک روانہ کر دیا جائے گا۔

زیبا مسعود نے کتوں پر ظلم کے روک تھام کے لیے پولیس سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

زیبا مسعود کے مطابق انہوں نے کتوں پر ظلم کے روک تھام کے لیے ایڈیشنل آئی جی سے بھی ملاقات کی اور اس کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کیا۔
’لکی اینمل پروٹیکشن شیلٹر‘ کی دیکھ بھال کرنے والے جاوید خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’کتے کے کان کاٹ کر انہیں اعلٰی نسل قرار دے کر قیمت بڑھائی جاتی ہے اور جو کتا فروخت نہ ہو اسے کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتا ہے۔ اس گھناؤنے فعل میں وہاں کے مقامی لوگ ملوث ہیں جن کے خلاف کارروائی ناگزیر ہے۔‘

محکمہ لائیو سٹاک کا کہتا ہے؟

محکمہ لائیو سٹاک کے ڈائریکٹر برائے افزائش نسل ڈاکٹر معصوم شاہ نے اس حوالے سے اُردو نیوز کو بتایا کہ کتے کے بچے کے کان کاٹ کر اسے ’کوچی کتا‘ ظاہر کیا جاتا ہے جس کی قیمت دیگر کتوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔
کوچی کتا لڑائی میں تگڑا ہوتا ہے یہ عموماً خانہ بدوشوں کے پاس ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مال مویشی چرانے کے لیے گڈریا کوچی کتے کا ہی استعمال کرتا ہے۔
ڈاکٹر معصوم شاہ کے مطابق ’یہ ایک غیر قانونی اور غیر شرعی فعل ہے کیونکہ بغیر بے ہوشی کے جانور کے کان اور دم کاٹ کر ان کی شکل و صورت بگاڑ دی جاتی ہے۔‘

زیبا مسعود لکی اینیمل پروٹیکشن شیلٹر کی بانی ہیں۔ (فوٹو: زیبا مسعود)

پشاور میں پالتو کتوں کے کاروبار سے منسلک اصغر خان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ان کے پاس ایک کتا لایا گیا تھا جس کے کان کاٹے گئے تھے اور اسے افغان شیفرڈ قرار دے کر دُگنی قیمت کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ نوجوان نے کہا کہ کوچی کتا 30 ہزار تک فروخت کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کتوں کی نسل کو پہچاننے والے بہت کم لوگ ہیں اکثر لوگ کٹے ہوئے کان اور دم دیکھ کر خرید لیتے ہیں۔ بعض کتوں کی نسل ایسی ہوتی ہے کہ جس کے کان اور دُم کاٹنے سے وہ کوچی کتے دکھنے لگتے ہیں اور لوگ آسانی سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔
اصغر خان نے کہا کہ پشاور اور نواحی علاقوں میں کتے کے کان اور دُم کاٹنے کے لیے باقاعدہ لوگ موجود تھے جو ایک سرجری کے 500 روپے لیتے ہیں۔

شیئر: