اسلام آباد میں ایک ماہ میں کتے کے کاٹنے کے 500 واقعات
اسلام آباد میں ایک ماہ میں کتے کے کاٹنے کے 500 واقعات
بدھ 11 اگست 2021 6:11
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
پنجاب کے ہسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کے 19813 واقعات رپورٹ ہوئے (فوٹو اے ایف پی)
سندھ میں کتے کے کاٹنے کے واقعات تو حالیہ دنوں میں سامنے آتے رہے ہیں مگر اسلام آباد کے حوالے سے زیادہ واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔ تاہم وفاقی دارالحکومت کے دو بڑے ہسپتالوں کے ڈیٹا کے مطابق گذشتہ ماہ میں تقریبا 500 ایسے مریض ان ہسپتالوں میں لائے گئے ہیں جنہیں کتے نے کاٹا تھا اور انہیں ویکسین لگائی گئی تھی۔
سنیچر کو اسلام آباد کے علاقہ بنی گالہ کے رہائشی عقیل الرحمن مسجد جا رہے تھے کہ انہیں پڑوس کے ایک کتے نے کاٹ کر زخمی کر دیا۔
انہیں پولی کلینک ہسپتال لایا گیا مگر ہسپتال کے عملے نے بتایا کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین یعنی اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب نہیں ہے اس لیے وہ خود خرید لیں جس پر انہوں نے مقامی مارکیٹ سے 960 روپے کی ویکسین خرید کر لگوائی۔
عقیل الرحمن کا کہنا تھا کہ وفاقی دارالحکومت کے ہسپتال میں اگر ویکسین دستیاب نہیں ہے تو پھر دور دراز کے لوگوں کا کیا ہوگا۔ یاد رہے کہ ماہرین کے مطابق کتے کے کاٹے جانے کے بعد چند گھنٹوں میں ویکسین لگوانا ضروری ہوتا ہے۔
عقیل الرحمن نے اردو نیوز کو وہ دستاویز بھی دکھائی جس میں ہسپتال انتظامیہ نے لکھ کر دیا ہے کہ ویکسین دستیاب نہیں ہے۔
تاہم پولی کلینک ہسپتال کی انتظامیہ کے سنیئر رکن کا کہنا تھا کہ ’ہسپتال میں ویکسین موجود ہوتی ہے اور ایمرجنسی وارڈ میں لگا دی جاتی ہے۔ تاہم اگر کسی وجہ سے ختم بھی ہو جائے تو مریضوں کو چند گھنٹوں میں مہیا کر دی جاتی ہے البتہ ان کا کہنا تھا کہ دوسری ڈوز اور بقییہ خوراکیں مریضوں کو پرائیویٹ طور پر خریدنی ہوتی ہیں۔‘
اسلام آباد میں اتنے مریض کہاں سے آئے؟
عقیل الرحمن کے واقعے کے بعد اردو نیوز نے وفاقی دارالحکومت کے دو بڑے ہسپتالوں کی انتظامیہ سے رابطہ کر کے پوچھا کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران کتنے ایسے واقعات پیش آئے ہیں جن میں مریضوں کو کتے کے کاٹنے کی ویکسین لگائی گئی ہو۔
پولی کلینک کی انتظامیہ کے سنیئر رکن نے بتایا کہ ’فارمیسی ریکارڈ کے مطابق گذشتہ ماہ تقریبا دو سو کے قریب کتے کے کاٹنے کے مریض ہسپتال لائے گئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ ریکارڈ نہیں ہے کہ کتنے مریض اسلام آباد سے لائے گئے تھے اور کتنے مضافاتی علاقوں سے، لیکن پولی کلینک میں مریض قریبی اضلاع سے بھی آٗئیں تو انہیں طبی امداد سے انکار نہیں کیا جاتا۔
اسلام آباد کے پمز ہسپتال کے ترجمان ڈاکٹر وسیم خواجہ کا کہنا تھا کہ ’ان کے ہسپتال میں کتے کے کاٹنے کے بعد گذشتہ ماہ تین سو کے قریب مریض لائے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے دو بڑے ہسپتال ہی سرکاری سطح پر اس طرح کے مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔ تاہم پرائیویٹ ہسپتالوں میں بھی یہ ویکسین لگوائی جاتی ہے۔‘
میٹرو پولیٹن کارپوریشن آف اسلام آباد (ایم سی آئی) کے ڈی جی سرور سندھو نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہیں اتنے زیادہ واقعات پر حیرت ہے کیونکہ اسلام آباد کے شہری علاقوں میں آوارہ کتوں کی اتنی تعداد نہیں کہ یہاں اتنے کیسز آ سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں گذشتہ دو ماہ میں بھی ایک بھی کتے کے کاٹنے کے واقعے کی شکایت نہیں آئی۔ تاہم مختلف علاقوں سے اکا دکا شکایات آتی ہیں کہ یہاں کتے زیادہ ہو گئے ہیں۔
اس سوال پر کہ اب آوارہ کتوں سے نمٹنے کے لیے کارپوریشن کیا کرتی ہے سرور سندھو کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ تک آوارہ کتوں کو شوٹ کر دیا جاتا تھا اور ایم سی آئی کے پاس ڈاگ شوٹرز اب بھی موجود ہیں۔ تاہم کچھ عرصہ قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر یہ عمل رک چکا ہے اور اب اسلام آباد وائلڈ لائٖف بورڈ ،ایم سی ائی اور سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک پالیسی مرتب کر رہی ہے تاکہ کتوں کو مارنے کے بجائے ان کی افزائش کو روکا جا سکے۔
ملک بھر میں کتوں کے کاٹنے کے کتنے واقعات ہوتے ہیں؟
پنجاب کے محکمہ صحت کے 2019 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کے 19,813 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سب سے زیادہ 5466 رحیم یار خان میں رپورٹ ہوئے جبکہ ملتان، بہالپور اور اٹک میں ایک ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔
اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صوبے میں پانچ لاکھ کے قریب آوارہ کتے موجود ہیں جس میں سب سے زیادہ 98 ہزار ضلع گجرات میں تھے جبکہ لاہور میں 29 ہزار، راولپنڈی میں 13 ہزار اور رحیم یار خان میں دو ہزار آوارہ کتے موجود تھے۔
سندھ حکومت کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 کے پہلے نو مہینوں میں صوبے بھر کے ہسپتالوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد کتے کے کاٹنے کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے جبکہ سال 2019 میں صوبے بھر میں تقریباً دو لاکھ کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
دی نیوز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس سال کے پہلے چار ماہ میں خیبر پختونخواہ میں کتے کے کاٹنے کے 14 ہزار کیسز سامنے آئے تھے۔
دی نیوز کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں ہر سال تقریبا تین لاکھ ایسے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ ایسے کیسز کی بڑی تعداد رپورٹ بھی نہیں ہوتی۔
یاد رہے کہ اس سال مارچ میں سندھ ہائی کورٹ کے سکھر بینچ نے کتوں کے کاٹنے کے واقعات کی روک تھام میں ناکامی پر سندھ اسمبلی کے دو ارکان کو معطل کرنے کا حکم دیا تھا۔
عدالتی ریمارکس کے مطابق لاڑکانہ ضلع کے رتو ڈیرو سے آصف علی زرداری کی بہن اور رکن سندھ اسمبلی فریال تالپور اور جامشورو سے ملک سکندر کو معطل کر کے انہیں اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روک دیا تھا۔
سندھ میں سگ گزیدگی کے سب سے زیادہ واقعات کراچی میں پیش آئے جن کی تعداد 17 ہزار آٹھ سو ہے۔ ان کے علاہ نوشہرو فیروز 13 ہزار، خیرپور 12 ہزار پانچ سو، کشمور 11 ہزار چار سو، دادو میں 11 ہزار تین سو، قمبر شہداد کوٹ نو ہزار ایک سو، سانگھڑ آٹھ ہزار، جبکہ عمر کوٹ میں 7 ہزار پانچ سو کیسز رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق ’سندھ میں ہر مہینے کتے کے کاٹنے کے 16 سے 17 ہزار کیسز رپورٹ ہوتے ہیں اور ان میں سے بیشتر افراد کو اینٹی ریبیز ویکسین نہیں ملتی۔‘
اپریل 2020 میں لاڑکانہ کے نو سالہ بچے ذیشان کو آوارہ کتے نے کاٹا تھا جو بروقت ویکسین نہ ملنے پر ریبیز کا شکار ہ وگیا تھا۔ 20 دن کی تاخیر کے بعد بچے کو کراچی لایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہوسکا۔
اس سے پہلے شکار پور کے 10 سالہ میر حسن کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا جسے ستمبر 2019 میں کتے نے کاٹا تھا۔ تاہم پورے ضلع میں اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب نہیں تھی، بعد میں اسے تشویش ناک حالت میں لاڑکانہ منتقل کیا گیا تو وہاں بھی ویکسین فراہم نہ کی گئی۔
بچے کے والدین اسے کمشنر آفس لاڑکانہ کے احاطے میں لیے بیٹھے رہے جہاں اینٹی ریبیز ویکسینیشن سینٹر قائم تھا۔ تاہم علاج نہ ہو سکا اور بچے کا کمشنر آفس کے احاطے میں ہی انتقال ہو گیا۔
سال 2020 میں سندھ میں کتے کے کاٹنے سے ہونے والی اموات کی تعداد 17 رپورٹ ہوئی تھی۔