جدہ میں متحارب فریقوں کی بات چیت، سوڈانی عوام کو جنگ بندی کی اُمید
اپریل کے وسط میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے متعدد بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جا چکی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سوڈان کے عوام نے ملک کے متحارب دھڑوں کے سفیروں کے درمیان جدہ میں ہونے والی بات چیت سے امیدیں وابستہ کی ہیں جس کے نتیجے میں خون ریزی کا سلسلہ ختم ہو سکتا ہے جس نے گزشتہ تین ہفتوں کے دوران سینکڑوں افراد کی جان لی جبکہ بڑے پیمانے پر شہری نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق امریکہ و سعودی عرب کی جانب سے سب سے پہلے ایک سنجیدہ کوشش کے ذریعے سوڈان میں پھوٹ پڑنے والی جنگ کو ختم کرنے کے لیے متحارب فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لایا گیا۔
متحارب فوجی دھڑوں کی جھڑپوں نے خرطوم کے کچھ حصوں کو جنگی علاقوں میں تبدیل کر دیا ہے اور برسوں کی بدامنی کے بعد سویلین حکومت کے قیام کے بین الاقوامی حمایت یافتہ منصوبے کو پٹڑی سے اتار دیا ہے، اور ایک نیا انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ باضابطہ مذاکرات سے قبل بات چیت سنیچر کو شروع ہوئی تھی اور ’انسانی امداد‘ کی فراہمی میں سہولت کے لیے قلیل مدتی جنگ بندی کو جاری رکھنے کی امید کی جا رہی ہے۔
سوڈان کی فورسز آف فریڈم اینڈ چینج نامی ایک سیاسی گروپ جو سویلین حکومت کو اقتدار منتقل کرنے کے منصوبے کی قیادت کر رہا ہے، نے جدہ مذاکرات کا خیرمقدم کیا۔
فوج اور حریف نیم فوجی دستے ریپڈ سپورٹ فورسز نے والی جدہ میں ہونے والی بات چیت کی پیش رفت کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
جنگجوؤں نے کہا ہے کہ وہ انسانی امداد پہنچانے کے لیے صرف محفوظ راستہ فراہم کرنے جیسے مسائل کے حل کی کوشش کریں گے، جنگ کا خاتمہ نہیں۔
اپریل کے وسط میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے متعدد بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی جا چکی ہے۔
سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے رہائشی 35 سالہ سرکاری ملازم تمادر ابراہیم نے کہا کہ ’اگر جدہ مذاکرات جنگ کو روکنے میں ناکام ہو گئے تو اس کا مطلب ہو گا کہ ہم دریائے نیل کے پار اپنے گھروں اور معمول کی زندگی کی طرف نہیں جا سکیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم ان مذاکرات کے نتائج کے منتظر ہیں کہ ہمارے پاس یہی ایک اُمید ہے۔‘
خرطوم کے ایک اور رہائشی 28 سالہ محجوب صالح جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں، نے کہا کہ دارالحکومت کے جن علاقوں میں کنٹرول کے لیے جنگ ہو رہی ہے وہاں روزانہ کی بنیاد پر صورتحال بدلتی ہے۔
محجوب صالح کے مطابق وسطی خرطوم میں انہوں نے جنگ کے دوران ایک پڑوسی کو گولی لگتے دیکھا جس کے بعد انہوں نے گزشتہ ماہ اپنے خاندان کے لیے جنوب مشرقی خرطوم کے علاقے میں کرائے پر فلیٹ لیا۔