سانس لینے کی مشقیں الزائمر کی بیماری سے بچاتی ہیں: تحقیق
سانس لینے کی مشقوں سے دل کی دھڑکن کی رفتار نارمل رہتی ہے۔ فوٹو: فری پک
سانس لینے کی مشقیں ویسے تو ذہنی دباؤ میں کمی کے لیے انتہائی مفید سمجھی جاتی ہیں لیکن نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ان سے الزائمر یعنی یاداشت کھونے کی بیماری کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
ہیلتھ لائن ویب سائٹ کے مطابق یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلی فورنیا کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جوان اور بوڑھے دونوں ہی الزائمر کی وجہ بننے والے عوامل کو غیرمؤثر کر سکتے ہیں۔
برطانوی ادارے الزائمر ریسرچ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سوزین کوہل ہاس کا کہنا ہے کہ یہ پہلی تحقیق ہے جو سانس لینے کی مشقوں کے الزائمر پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لے رہی ہے۔
محقیقین کے مطابق سانس لینے کے چند مخصوص طریقوں سے دل کی دھڑکن کی رفتار میں بھی کمی واقع ہوتی ہے اور انہی مشقوں سے ایمیلوئیڈ پروٹین کی خون میں مقدار بھی کم رہتی ہے جو دراصل الزائمر کی پہلی علامت ہیں۔
اس تحقیق میں 108 افراد نے حصہ لیا جن میں سے نصف کی عمر 18 سے 30 جبکہ دیگر کی 55 سے 80 سال تھی۔
ان تمام افراد کو چار ہفتوں کے لیے دن میں دو مرتبہ سانس لینے کی مخصوص مشقیں کرنے کا کہا اور ساتھ ہی ان کے دل کی دھڑکن کا بھی باقاعدہ معائنہ کیا گیا۔
تحقیق کے دوران یہ معلوم ہوا کہ سانس لینے کی مشقوں سے دل کی دھڑکن کی رفتار پر اثر ہوا ہے اور ہر مشق کے دوران دل کی دھڑکن میں تبدیلی دیکھی گئی۔
چار ہفتوں کی تحقیق میں یہ بات واضح ہوئی کہ ان مشقوں سے خون میں پائی جانے والی ایمیلوئیڈ بیٹا پیپٹائڈز پروٹین اور تاؤ پروٹین کی مقدار میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ایمیلوئیڈ بیٹا پیپٹائڈز اور تاؤ پروٹین الزائمر بیماری کی اہم وجہ ہیں۔
ایمیلوئیڈ بیٹا پیپٹائڈز ایک ایسا پروٹین ہے جس کی دماغ میں مقدار بڑھنے اور اکھٹا ہونے سے دماغ کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور انسان الزائمر بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔
الزائمر ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا اور جو بعد میں ڈیمینشیا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ڈیمینشیا سے نہ صرف یادداشت متاثر ہوتی ہے بلکہ جسمانی اعضا کی کارکردگی بھی بتدریج کمزور ہوتی ہے۔
سانس لینے کا طریقہ کار دل کی دھڑکن پر اثر انداز ہوتا ہے جس کا براہ راست اثر نہ صرف ہمارے نظام اعصاب پر ہے بلکہ دماغ کے پروٹین پیدا اور خارج کرنے کا طریقہ کار بھی متاثر ہوتا ہے۔