Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا توڑ پھوڑ کرنے والے سویلینز پر آرمی ایکٹ لگ سکتا ہے؟

اکرام چوہدری کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ حالات میں سویلینز پر آرمی ایکٹ لگایا گیا تو عدم استحکام کا تسلسل بڑھے گا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق اس کی اعلٰی کمان نے فیصلہ کیا ہے کہ گذشتہ ہفتے عسکری تنصیبات پر توڑ پھوڑ کرنے والے افراد کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گیے ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی زیر صدارت جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں منعقد ہونے والی ایک خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس میں شرپسندوں کی جانب سے کی گئی جلاؤ گھیراؤ اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی  شدید ترین الفاظ میں مذمت کی گئی اور ان حملوں میں ملوث افراد پر پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
پاکستان کا آرمی ایکٹ 1952 میں بنا تھا اور یہ فوج سے متعلقہ جرائم کی سزاؤں کا احاطہ کرتا ہے جس میں سزائے موت اور قید شامل ہے جو جرائم کی نوعیت کے تحت دی جاتی ہیں۔ ان جرائم میں بغاوت سے لے کر دھوکہ دہی، جھوٹا الارم بجانا اور سویلین جرائم تک شامل ہیں۔
یہ قانون بنیادی طور پر فوجیوں کے لیے بنایا گیا تھا تاہم بعد ازاں کی جانے والی ترامیم کے ذریعے یہ اب مخصوص حالات میں غیر فوجی یعنی سویلین افراد پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کے سینیئر ماہر قانون اکرم شیخ کے مطابق آرمی ایکٹ ان تمام سویلینز پر لگایا جا سکتا ہے جنہوں نے فوجی تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہو۔ 
تاہم اکرم شیخ کہتے ہیں کہ اس قانون کے ذریعے سزاوں کا تعین اور ان پر عملدرآمد کا اندازہ مقدمات کی کاروائی کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے۔ 
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ کوئی بھی شخص سویلین یا فوجی جس نے اس قانون کے تحت جرائم قرار پانے والے عوامل کا ارتکاب کیا ہو، اس پر یہ قانون لاگو کیا جا سکتا ہے۔
تاہم سپریم کورٹ کے ایک اور سینیئر وکیل اکرام چوہدری کہتے ہیں کہ سویلین پر آرمی ایکٹ اسی وقت لگے گا جب اس نے کسی فوجی کے ساتھ مل کر کوئی جرم کیا ہو۔ 
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس قانون میں ترمیم ہوئی تھی کہ کسی طرح یہ سویلینز پر لاگو ہو سکتا ہے، یہ تب ہو سکتا ہے جب فوج کے اندر سے کوئی شخص کسی سویلین کے ساتھ جڑا ہو تو پھر اس سویلین کا بھی ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے۔ پہلے تو تحقیق ہونی چاہیے، پینل کوڈ، دہشت گردی کے قوانین موجود ہیں۔‘
تاہم اکرام چوہدری نے حالیہ توڑ پھوڑ کے حوالے سے آرمی ایکٹ کے نفاذ  کے متعلق کہا کہ اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ان واقعات کی تفتیش ہو۔
ان واقعات کے تناظر میں آرمی ایکٹ لگانے کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ پہلے ان واقعات کی تفیتیش ہونی چاہیے اس کے بعد اس قانون کے نفاذ کا تعین ہو سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر یہ قانون فوج کے اندر ٹرائلز کے لیے ہے۔ اس کے سویلین پر نفاذ کے لیے ترامیم کی گئی ہیں لیکن وہ مخصوص حالات میں قابل عمل ہوتی ہیں۔
توڑ پھوڑ اور دیگر جرائم جن میں فوج کے اندر سے مدد شامل نہ ہو ان کے لیے عام لوگوں کے لیے عام قوانین موجود ہیں اور ان پر انہی عام قوانین کے تحت مقدمے چلنے چاہیئں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اگر موجودہ حالات میں سویلینز پر آرمی ایکٹ لگایا گیا تو عدم استحکام کا تسلسل بڑھے گا۔ 
اس صورت میں امن قائم نہیں ہو گا۔ کیونکہ طاقت استعمال کرنے کے نتائج کبھی بھی مثبت نہیں نکلے،  طاقت ہمیشہ تباہی و بربادی کی طرف لے کر جاتی ہے۔‘
اکرام چوہدری نے کہا کہ لوگ ملٹری ٹرائل کا بھی رد عمل دے سکتے ہیں اور اس کے نفاذ کے بعد وہ گھروں میں بالکل نہیں بیٹھیں گے۔ 
اکرام چوہدری کے مطابق ان واقعات پر ’آفیشل سیکرٹ ایکٹ‘ کا نفاذ بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ توڑ پھوڑ کے واقعات میں کوئی راز فاش نہیں ہوا۔

شیئر: