لاہور میں سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ کے چاروں طرف داخلی اور خارجی راستوں کو پولیس نے رکاوٹیں لگا کر بند کر رکھا ہے۔
مال روڈ سے دھرم پورہ تک کینال روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اس طرح سے ڈیوس روڈ سے دھرم پورہ پل تک کی سڑک جو کہ عمران خان کی رہائش گاہ کے عقبی حصے سے گزرتی ہے اسے بھی رکاوٹیں لگا کر بند کیا گیا ہے۔
زمان پارک کی گلیوں کے داخلی اور خارجی راستوں پر بھی پولیس موجود ہے۔ اس ساری صورت حال کا آغاز اس وقت ہوا جب پنجاب کے نگراں وزیر اطلاعات عامر میر نے بدھ کی دوپہر ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ عمران خان کی رہائش گاہ میں 30 سے 40 شرپسند عناصر چھپے ہوئے ہیں جو فوجی تنصیبات پر حملوں میں مطلوب ہیں۔
مزید پڑھیں
-
-
دو سال قبل عمران خان سے دوستی ختم ہو گئی تھی، جہانگیر ترین
Node ID: 765271
-
کیا کاروباری شخصیات ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کروا پائیں گی؟
Node ID: 765296
اس پریس کانفرنس کے بعد شام کو پولیس نے زمان پارک کے علاقے کو سیل کرنا شروع کردیا، تاہم اس عمل کے لیے بہت زیادہ پولیس کو استعمال نہیں کیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق لگ بھگ 250 پولیس اہلکار زمان پارک کے گرد ڈیوٹی پر مامور ہیں۔
عمران خان نے شام چھ بجے ایک ویڈیو خطاب اور ٹویٹ میں خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں ایک مرتبہ پھر گرفتار کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے اور ان کا گھر پولیس کے گھیرے میں ہے۔
رات آٹھ بجے کے قریب عمران خان کے چیف آف سٹاف شبلی فراز اور مرکزی رہنما افتخار درانی نے ایک بیان جاری کیا کہ میڈیا کی موجودگی میں چار پولیس اہلکار آکر گھر کی تلاشی لے سکتے ہیں۔ اس کے بعد تحریک انصاف نے گھر کے باہر کھڑے میڈیا کے نمائندوں کو اندر بلا لیا اور عمران خان سے ملاقات کروائی، تاہم میڈیا نمائندوں کے موبائل فون باہر رکھوا لیے گیے۔
اُس وقت عمران خان کے گھر میں دو درجن سے زائد افراد اور قانونی ٹیم موجود تھی۔ اس کے علاوہ اتنی ہی تعداد میں کارکن گھر کے باہر دکھائی دے رہے تھے۔ ماضی کے برعکس عمران خان کے خدشے کے اظہار کے بعد کارکنان زمان پارک کی طرف نہیں آئے۔
پنجاب کے صوبائی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عامر میر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’آج رات عمران خان کے گھر کسی قسم کے آپریشن کا ارادہ نہیں ہے۔‘
ترجمان پنجاب حکومت کا ایک ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ’پنجاب پولیس زمان پارک میں چھپے ہوئے 40 دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے صرف چار پولیس والے لے کر نہیں جائے گی۔‘
’40 تربیت یافتہ دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے کم سے کم 400 پولیس والوں کو جانا ہو گا، خان صاحب کے جواب کا انتظار رہے گا۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ ’24 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن جمعرات کو دوپہر 12 بجے ختم ہو گی اس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آپریشن کی نوعیت کیا ہو گی۔‘
ترجمان پنجاب حکومت نے @ImranKhanPTI کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب پولیس زمان پارک میں چھپے ہوئے 40 دہشت گردوں کی گرفتاری کےلیے صرف 4 پولیس والے لے کر نہیں جائے گی40 تربیت یافتہ دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے کم از کم 400 پولیس والوں کو جانا ہو گا خان صاحب کے جواب کا انتظار رہے گا
— Government of Punjab (@GovtofPunjabPK) May 17, 2023
دوسری طرف تحریک انصاف نے جمعرات کو مریدکے میں ہونے والا اپنا جلسہ منسوخ کر دیا ہے۔ اور کل جمعرات کو ہی عمران خان کی اسلام آباد کی مختلف عدالتوں میں پیشی ہے۔
زمان پارک پر ’فالس فلیگ آپریشن‘ ہو سکتا ہے: پی ٹی آئی رہنما شفقت محمود
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور فوکل پرسن برائے انٹرنیشنل میڈیا شفقت محمود نے کہا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی اور عمران خان کو نااہل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے زمان پارک پر ایک ’فالس فلیگ آپریشن‘ کیا جا سکتا ہے۔
بدھ کی شب اردو نیوز کے نامہ نگار خرم شہزاد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی کو خطرہ ہے کہ پنجاب پولیس کسی بھی وقت عمران خان کی رہائش پر چڑھائی کرے گی اور پہلے سے پکڑے ہوئے افراد کو وہاں سے پکڑے گئے دہشت گرد بنا کر دکھائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے انتظامیہ کو پیش کش کی ہے کہ وہ چار پانچ پولیس والوں کو بھیج کر زمان پارک کی تلاشی لے سکتے ہیں لیکن اگر انہوں نے محض اس مقصد کے لیے گھر پر دھاوا بولا تو وہ خطرناک عمل ہو گا۔‘
مزید پڑھیں
-
کیا کاروباری شخصیات ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کروا پائیں گی؟
Node ID: 765296
-
-