Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پولیس کا لاہور زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کا ’محاصرہ‘

عامر میر کی پریس کانفرنس کے بعد شام کو پولیس نے زمان پارک کو سیل کرنا شروع کردیا (فائل فوٹو: سکرین گریب)
لاہور میں سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ کے چاروں طرف داخلی اور خارجی راستوں کو پولیس نے رکاوٹیں لگا کر بند کر رکھا ہے۔
مال روڈ سے دھرم پورہ تک کینال روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کی آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اس طرح سے ڈیوس روڈ سے دھرم پورہ پل تک کی سڑک جو کہ عمران خان کی رہائش گاہ کے عقبی حصے سے گزرتی ہے اسے بھی رکاوٹیں لگا کر بند کیا گیا ہے۔
زمان پارک کی گلیوں کے داخلی اور خارجی راستوں پر بھی پولیس موجود ہے۔ اس ساری صورت حال کا آغاز اس وقت ہوا جب پنجاب کے نگراں وزیر اطلاعات عامر میر نے بدھ کی دوپہر ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ عمران خان کی رہائش گاہ میں 30 سے 40 شرپسند عناصر چھپے ہوئے ہیں جو فوجی تنصیبات پر حملوں میں مطلوب ہیں۔
اس پریس کانفرنس کے بعد شام کو پولیس نے زمان پارک کے علاقے کو سیل کرنا شروع کردیا، تاہم اس عمل کے لیے بہت زیادہ پولیس کو استعمال نہیں کیا گیا۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق لگ بھگ 250 پولیس اہلکار زمان پارک کے گرد ڈیوٹی پر مامور ہیں۔
عمران خان نے شام چھ بجے ایک ویڈیو خطاب اور ٹویٹ میں خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں ایک مرتبہ پھر گرفتار کرنے کی تیاری کر لی گئی ہے اور ان کا گھر پولیس کے گھیرے میں ہے۔
رات آٹھ بجے کے قریب عمران خان کے چیف آف سٹاف شبلی فراز اور مرکزی رہنما افتخار درانی نے ایک بیان جاری کیا کہ میڈیا کی موجودگی میں چار پولیس اہلکار آکر گھر کی تلاشی لے سکتے ہیں۔ اس کے بعد تحریک انصاف نے گھر کے باہر کھڑے میڈیا کے نمائندوں کو اندر بلا لیا اور عمران خان سے ملاقات کروائی، تاہم میڈیا نمائندوں کے موبائل فون باہر رکھوا لیے گیے۔
اُس وقت عمران خان کے گھر میں دو درجن سے زائد افراد اور قانونی ٹیم موجود تھی۔ اس کے علاوہ اتنی ہی تعداد میں کارکن گھر کے باہر دکھائی دے رہے تھے۔ ماضی کے برعکس عمران خان کے خدشے کے اظہار کے بعد کارکنان زمان پارک کی طرف نہیں آئے۔

زمان پارک کی گلیوں کے داخلی اور خارجی راستوں پر بھی پولیس موجود ہے (فائل فوٹو: اردو نیوز)

پنجاب کے صوبائی وزیر برائے اطلاعات و نشریات عامر میر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’آج رات عمران خان کے گھر کسی قسم کے آپریشن کا ارادہ نہیں ہے۔‘
ترجمان پنجاب حکومت کا ایک ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ’پنجاب پولیس زمان پارک میں چھپے ہوئے 40 دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے صرف چار پولیس والے لے کر نہیں جائے گی۔‘
’40 تربیت یافتہ دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے کم سے کم 400 پولیس والوں کو جانا ہو گا، خان صاحب کے جواب کا انتظار رہے گا۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ ’24 گھنٹوں کی ڈیڈ لائن جمعرات کو دوپہر 12 بجے ختم ہو گی اس کے بعد یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آپریشن کی نوعیت کیا ہو گی۔‘
دوسری طرف تحریک انصاف نے جمعرات کو مریدکے میں ہونے والا اپنا جلسہ منسوخ کر دیا ہے۔ اور کل جمعرات کو ہی عمران خان کی اسلام آباد کی مختلف عدالتوں میں پیشی ہے۔

زمان پارک پر ’فالس فلیگ آپریشن‘ ہو سکتا ہے: پی ٹی آئی رہنما شفقت محمود

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اور فوکل پرسن برائے انٹرنیشنل میڈیا شفقت محمود نے کہا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی اور عمران خان کو نااہل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کی کوشش کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے زمان پارک پر ایک ’فالس فلیگ آپریشن‘ کیا جا سکتا ہے۔
بدھ کی شب اردو نیوز کے نامہ نگار خرم شہزاد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی پارٹی کو خطرہ ہے کہ پنجاب پولیس کسی بھی وقت عمران خان کی رہائش پر چڑھائی کرے گی اور پہلے سے پکڑے ہوئے افراد کو وہاں سے پکڑے گئے دہشت گرد بنا کر دکھائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے انتظامیہ کو پیش کش کی ہے کہ وہ چار پانچ پولیس والوں کو بھیج کر زمان پارک کی تلاشی لے سکتے ہیں لیکن اگر انہوں نے محض اس مقصد کے لیے گھر پر دھاوا بولا تو وہ خطرناک عمل ہو گا۔‘
شفقت محمود نے بتایا کہ ’اس وقت زمان پارک میں ایسی صورت حال پیدا کی جا رہی ہے کہ میڈیا بھی وہاں نہ جا سکے اور وہ اپنی مرضی کا ایکشن کر لیں۔‘
انہوں ںے مزید بتایا کہ ’پولیس نے زمان پارک کی ہر طرف کی ناکہ بندی کر دی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ یہاں دہشت گرد چھپے ہیں، ہمارا خدشہ ہے کہ یہ فریم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ’ہمیں خوف ہے کہ یہ وہاں جائیں گے اور پہلے سے پکڑے ہوئے افراد دکھا کر کہیں گے کہ یہ یہاں سے پکڑے ہیں۔‘
یہ پی ڈی ایم والے پی ٹی آئی اور عمران خان کو نقصان پہنچانے کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر وہ اس طرح کا آپریشن کرتے ہیں تو پی ٹی آئی کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ مکمل ریاستی اتھارٹی اور قوت کے ساتھ آئیں گے۔
ہم کیا کر سکتے ہیں، ہم مقابلہ نہیں کر سکتے، وہ پوری ریاستی قوت کے ساتھ آئیں گے۔‘

شفقت محمود کا کہنا ہے کہ پولیس نے ہر طرف سے زمان پارک کی ناکہ بندی کر دی ہے (فوٹو: اردو نیوز)

ایک اور سوال کے جواب میں شفقت محمود نے کہا کہ ان کے ساتھیوں پر پارٹی چھوڑنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے پی ٹی آئی سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
 تاہم انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اندر بڑے پیمانے پر توڑپھوڑ کا تاثر درست نہیں اور محض چند افراد ہیں جو دباؤ برداشت نہیں کر سکے اور انہوں نے گھبرا کر رستے جدا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا فواد چودھری اور کچھ دوسرے سینیئر رہنما بھی پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ غلط ہے اور نہ تو فواد چودھری پارٹی چھوڑ رہے ہیں اور نہ ہی کوئی اور سینیئر رہنما۔‘
شفقت محمود نے کہا کہ ’سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں پر ایسے دباؤ ڈالے جاتے ہیں اور کچھ لوگ یہ دباؤ برداشت نہیں کر سکتے۔‘

شیئر: