Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کاروباری شخصیات ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کروا پائیں گی؟

میٹنگ کے شرکا نے کہا کہ موجودہ سیاسی کشمکش ملک کو درپیش مسائل میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے (فوٹو: عمران خان فیس بک)
لاہور کے رائیونڈ روڈ پر معروف تاجر گوہر اعجاز کے گھر منگل کی سہ پہر خاصی گہما گہمی تھی۔ ملک کے چوٹی کے تاجر اور کاروباری حضرات کو اس خاص بیٹھک کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ شام پانچ بجے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ آنے والے معززین میں کراچی سے تعلق رکھنے والے بزنس مین عقیل کریم ڈھیڈی، میڈیا اور تعلیمی شعبے کے بزنس مین میاں عامر محمود، انڈس ہسپتال چلانے والے میاں احسان اور لاہور چیمبر آف کامرس کے سابق چیئرمین الماس حیدر سمیت ایک درجن سے زائد کاروباری شخصیات شامل تھیں۔
ملک کے چوٹی کے کاروباری افراد کا یہ اکٹھ پاکستان کی جاری سیاسی صورت حال سے متعلق تھا۔ شرکا نے اس بات کا اظہار کیا کہ موجودہ سیاسی کشمکش ملک کو درپیش مسائل میں اضافہ کا سبب بن رہی ہے۔ اس اکٹھ میں موجود ایک کاروباری شخصیت نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم لوگ اس لیے اکھٹے ہوئے کہ اس سے پہلے کہ معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ جائیں تاجر برادری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’اس سے پہلے کئی مواقع آئے ہیں کہ کاروباری افراد نے اپنا کردار ادا کیا۔ شرکا نے اپنے اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا اور حل بھی تجویز کیے۔ جس کے بعد آخر میں تمام افراد کی آرا کے بعد ایک قرارداد منظور کی گئی۔ حالانکہ یہ کوئی ایسوسی ایشن نہیں تھی، چونکہ اخلاص موجود تھا اس لیے ہم نے اس کو قرار داد کا نام دیا۔‘
کاروباری شخصیت نے مزید بتایا کہ ’قرار دار ہم نے یہ منظور کی کہ موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لیے ہم تمام سٹیک ہولڈرز سے بالمشافہ ملیں گے۔ اس کے لیے وزیراعظم شہباز شریف، عمران خان، نواز شریف، صدر عارف علوی، چیف آف آرمی سٹاف عاصم منیر اور آصف علی زرداری سے بھی ملاقات کی جائے گی اور جس حد تک بھی ممکن ہو سکا سیاسی پارے کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘
ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ گوہر اعجاز نے اپنے گھر ہونے والی اس بیٹھک کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’امید ہے حالات بہتر ہوں گے۔‘
لاہور کے لیک سٹی میں کئی گھنٹے جاری رہنے والی اس میٹنگ کے بعد کراچی کی معروف کارباری شخصیت عقیل کریم ڈھیڈی وہاں سے سیدھے زمان پارک پہنچے اور انہوں نے عمران خان سے کافی طویل ملاقات کی۔
اس ملاقات کے بعد انہوں نے صحافیوں کے ایک سوال، کہ وہ عمران خان کے لیے کیا پیغام لے کر آئے تھے، کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میں کوئی پیغام لے کر نہیں آیا تھا۔ ملک کے معاشی حالات کے حوالے سے ملاقات کی اور امید ہے کہ چیزیں بہتر ہوں گی۔‘
تو کیا یہ کاروباری شخصیات موجودہ حالات میں اپنا کوئی کردار ادا کر پائیں گی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’یہ جو نام آپ نے بتائے ہیں اور جو کل بیٹھک ہوئی ہے میرا خیال ہے یہ صرف کاروباری افراد نہیں ہیں بلکہ اس ملک میں اثر رسوخ رکھنے والے لوگ ہیں۔ اور ان کے تعلقات ملک کی مقتدرہ سے بہت اچھے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جب عمران خان اقتدار میں آئے تو ان کو ٹیک آف کروانے کے لیے جنرل باجوہ نے ان افراد سے ملاقاتیں کی تھیں۔ تو ان کے کردار سے انکار ممکن نہیں۔ اور یہ اس وقت اس لیے بھی متحرک ہوئے ہیں کہ کم از کم بات چیت کا دروازہ ایک مرتبہ پھر کھولا جائے۔‘

شیئر: