تھریسور ، کیرلہ..... 21سالہ نوجوان سے شہد کی مکھیاں اتنی محبت کرتی ہیں کہ وہ اسے کاٹتی بھی نہیں۔ اس نے ایک مرتبہ تو 60ہزار مکھیوں سے اپنا چہرہ ڈھک لیا۔ اسکے والد سجایا کمار شہد کی مکھیاں پالتے تھے اور انکا شہد فروخت کیا کرتے تھے۔ اس پر انہیں انعام بھی مل چکا ہے۔بچپن ہی سے یہ نوجوان شہد کی مکھیوں سے کھیلتا رہا ہے۔ 5سال کا ہوا تو اس کی ان مکھیوں سے اچھی خاصی شناسائی ہوگئی اور یہ مکھیاں جیسے ہی اپنے اپنے بکسوں سے نکلتی ہیں اس کے چہرے پر آکر بیٹھ جاتی ہیں۔ یہ نوجوان اس وقت زراعت کی تعلیم حاصل کررہا ہے۔ اسکا کہناتھا کہ جب بھی یہ تھوڑا بہت کاٹتی ہیں مجھے بہت مزا آتا ہے کیونکہ یہ اتنا کاٹتی ہیں جتنا میں برداشت کرسکتا ہوں۔ ہر وقت میرے اردگرد منڈلاتی رہتی ہیں۔ کبھی سر پر بیٹھتی ہیں تو کبھی ان کتابوں پر جنہیں میں پڑ ھ رہا ہوتا ہوں۔ میں انہیں ساتھ بٹھائے چلتاہوں اور جب ڈانس کرتا ہوں تو یہ بھی میرے ساتھ ناچتی ہیں۔ انکی موجودگی سے مجھے بیحد سکون محسوس ہوتا ہے۔ مجھے تو یاد بھی نہیں کہ مکھیوں کے بغیر بھی میری زندگی گزری ہو۔ شروع میں تو فوری پہچان لیتا ہوں کہ یہ شہد کی مکھی ہے یا عام اڑنے والی۔ یہ میرے لئے نقصان دہ نہیں۔ ان سے میرا پیار کا تعلق ہے۔ میں ان سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوا۔ یہ مجھے کاٹتی بھی ہیں تو پیار سے کاٹتی ہیں۔ میں نے اپنی زندگی شہد کی مکھیوں کی فلاح و بہبود اور اتحفظ کیلئے وقفف کردی ہے۔ میں اپنے اس اسٹنٹ سے لوگوں میں شہد کی مکھیوں کی رحمدلی کے بارے میں بھی آگاہی دینا چاہتاہوں۔ اسکے والد نے کہا کہ جب میرا بیٹا 15سال کا تھا تو اس وقت سے ہی شہد کی مکھیوں سے محبت کرتا ہے۔ ہمارا خاندان تو اتنا غریب تھا کہ وہ قریبی کھیتوں سے پھل اور شہد چرا کر گزر بسر کرتا تھا۔ اب ہمارے پاس شہد کی مکھیوں کے 1500 بکس ہیں۔ ہر بکس میں 60ہزار مکھیوں کا بسیرا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ زراعت اور مکھیوں کی افزائش کے بارے میں پی ایچ ڈی کرے۔