Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلسطینی قدیم گاؤں طنطورہ میں 3 اجتماعی قبروں کا انکشاف

میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ طنطورہ میں ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا۔ فوٹو اے ایف پی
حائفہ کے قریب طنطورہ  میں اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 1948 کی جنگ میں تباہ ہونے والے فلسطینی گاؤں میں اجتماعی قبروں کے  تین ممکنہ مقامات کی نشاندہی ہوئی ہے۔
عرب نیوزکے مطابق مورخین طویل عرصے سے یہ مانتے رہے ہیں کہ اس علاقے میں ظلم برپا ہوتا رہا ہے اور وہاں زندہ بچ جانے والوں کی کہانیوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بعد گاؤں میں 200 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
جس علاقے میں فلسطینیوں کی اجتماعی قبروں کا انکشاف ہوا ہے ان میں سے دو مقامات یہاں ساحل سمندر کے قریب کار پارکنگ کا  علاقہ خیال کیا جاتا ہے۔
یہ گاؤں کبھی 1500 کے قریب فلسطینیوں کا مسکن تھا لیکن اب یہاں پر بیچ ریزورٹ قائم کئے گئے ہیں۔
ساحل کے سامنے یہ ایک باغ کی طرح کا علاقہ تھا اور1948 میں یہاں ایک گاؤں تھا جس میں  فلسطینی آباد تھے۔
یونیورسٹی آف لندن کی تحقیقی تنظیم کی فرانزک آرکیٹیکچر ٹیم کی تحقیقات میں اس مقام کی نشاندہی ہوئی ہے۔
 تحقیقات میں علاقے کا جغرافیائی ڈیٹا اور حکام کے ذریعے ریکارڈ اور  تصاویر کے علاوہ عینی شاہدین کی شہادتوں کے بعد 3D نقشہ تیار کیا گیا ہے۔

یہ گاؤں کبھی 1500 فلسطینیوں کا مسکن تھا اب بیچ ریزورٹ ہے۔ فوٹو گارجین

علاقے میں ایک تیسرے مقام کا بھی پتہ چلاہے جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہاں اجتماعی پھانسی گھاٹ تھا اور مبینہ طور پر کئی سال بعد اس جگہ سے انسانی باقیات بھی برآمد ہوئی تھیں۔
فلسطینی انسانی حقوق گروپ عادلہ کی جانب سے فرانزک آرکیٹیکچر رپورٹ کو ثبوت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے تا کہ مقتولین کے خاندانوں کی جانب سے اسرائیلی حکام کو شناخت شدہ مقامات کی حد بندی کی درخواست کی جا سکے۔
فلسطینی انسانی حقوق گروپ کے ڈائریکٹر سوہاد بشارا نے گارجین کو بتایا ہے کہ اس بحث میں جانا مشکل ہے کہ طنطورہ میں کوئی اجتماعی قبریں نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ اسرائیلی عدالتوں کو ہاں یا ناں کا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ علاقے میں رسائی کو آسان بنانے کاحل نکالنا چاہئے۔

علاقے میں ایک مقام پھانسی گھاٹ تھا جہاںانسانی باقیات برآمد ہوئی تھیں۔ فوٹو گارجین

علاقے کے رہائشی عدنان حاج یحییٰ  نے بتایا ہے کہ میں اس وقت 17 سال کا تھا جب اسرائیلی فورسز نے طنطورہ کے علاقے پر قبضہ کیا، یہ زمین میرے خاندان کی ملکیت تھی جہاں اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
عدنان یحییٰ نے تحقیق کرنے والوں کو بتایا ہے کہ اس وقت اسرائیلیوں نے مجھے اور میرے ایک دوست کو یہاں قبریں کھودنے اور درجنوں لاشیں دفنانے پر مجبور کیا تھا۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ میں اس دن کو کبھی نہیں بھول سکتا، اس دن میرا یقین ختم ہو گیا تھا اور اب میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ طنطورہ میں ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا۔
واضح رہے کہ 1948 میں اسرائیلیوں نے تقریباً  ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے  گھروں سے بے دخل کر دیا تھا اس سانحہ کو عربی میں نکبہ یا تباہی کہا جاتا ہے اور اس دوران اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں کم از کم 500 فلسطینی قصبے اور دیہات تباہ ہوئے تھے۔
 

شیئر: