Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پشاور میں دہشت گردوں کے خلاف ’تھرمل ڈرون کا پہلی مرتبہ استعمال‘ کتنا کارآمد رہا؟

ایس پی سی ٹی ڈی کاشف آفتاب عباسی کے بقول مزید ڈرون کیمروں کی ڈیمانڈ کی گئی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور کے نواحی علاقے متنی میں 5 جون کو دہشت گردوں کے کمپاؤنڈ پر آپریشن کے دوران پہلی بار تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا۔
یہ کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) خیبرپختونخوا کو دیے گئے تھرمل امیچنگ ڈرونز کی مدد سے کیا گیا پہلا کامیاب آپریشن تھا۔
دہشت گردوں کے کمپاؤنڈ پر سی ٹی ڈی اور سکیورٹی فورسز کی مشترکہ کارروائی پانچ جون کو مغرب کے وقت شروع ہوئی۔
اس کارروائی کے دوران پہلے ضلع خیبر سے متصل بارڈر متنی ادیزئی کی حدود میں دہشت گردوں کے ٹھکانے پر فائرنگ کی گئی مگر اندھیرے کے باعث آپریشن کو روکنا پڑا، تاہم رات کی تاریکی میں دہشت گردوں کے کمپاؤنڈ کی فضائی نگرانی کے لیے تھرمل امیجنگ ڈرون کا استعمال کیا گیا۔
ایس پی سی ٹی ڈی پشاور کاشف آفتاب عباسی نے اردو نیوز کو بتایا کہ دہشت گردوں کا کمپاؤنڈ کیکر کے گھنے درختوں میں بنایا گیا تھا اور اندھیرے میں آگے بڑھنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔
انہوں نے بتایا ’اس لیے جدید ڈرون کی مدد سے پوری رات کمپاؤنڈ کی فضائی مانیٹرنگ کرتے رہے تاکہ اگر کہیں نقل و حرکت ہو تو کارروائی کی جاسکے۔‘ 
’تین ڈرون کیمروں کی مدد سے کمپاؤنڈ کی نگرانی کے ساتھ ساتھ فورسز کی پوزیشن کو بھی تبدیل کیا جا رہا تھا۔ ڈرون کی وجہ سے فائرنگ کے باوجود دہشت گرد جوابی فائر کر سکے اور نہ ہی باہر نکلے۔‘

تھرمل امیجنگ کیا ہے؟

تھرمل کیمرہ یا امیجنگ جدید وژن ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے رات کی تاریکی میں ہر جاندار شے کی حرکت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔ تھرمل ٹیکنالوجی جسم کے درجہ حرارت کی مدد سے چھپے ہوئے انسان کی با آسانی نشاندہی کرتا ہے۔

تھرمل ڈرون کی مدد سے آپریشن کتنا کامیاب رہا؟

ایس پی سی ٹی ڈی کاشف آفتاب عباسی کے مطابق آپریشن میں کالعدم تنظیم کا اہم کارندہ ہلاک ہو گیا جبکہ ایک زخمی ہوا تھا تاہم دہشت گردوں کے دیگر ساتھی جھاڑیوں میں چھپ کر برساتی نالی کے ذریعے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔
’ہلاک ہونے والا دہشت گرد کسٹم اہلکاروں اور پولیس چوکی حملے میں ملوث رہا جس کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) شینے گروپ سے تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تھرمل ڈرون ٹیکنالوجی کا استعمال پہلی بار ہوا جس کا ہمیں بھرپور فائدہ ہوا۔
’دہشت گردوں نے گھنے درختوں کے بیچ میں کمپاؤنڈ بنایا ہوا تھا۔ اگر ڈرون کیمرے نہ ہوتے تو اس جگہ کی فضائی نگرانی کرنا ناممکن تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ اس آپریشن میں ہمارے جوانوں کو خراش تک نہیں آئی۔‘

دہشت گردوں کا کمپاؤنڈ کیکر کے گھنے درختوں میں بنایا گیا تھا (فوٹو: سی ٹی ڈی)

 انہوں نے بتایا کہ ’ڈرون سے دن کی روشنی میں کیمرے کو 200 میگاپگسلز تک زوم کیا جا سکتا ہے جبکہ رات کو نائٹ وژن اور تھرمل امیجنگ سہولت بھی اس ڈرون میں موجود ہے۔‘
ایس پی سی ٹی ڈی کے بقول مزید ڈرون کیمروں کی ڈیمانڈ کی گئی ہے جب کہ دوسری جانب ہمارے اہکاروں کو جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی تربیت بھی دی جارہی ہے۔

’سی ٹی ڈی کو فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں‘

نگراں وزیر اطلاعات فیروز جمال نے اردو نیوز کو بتایا کہ صوبے میں مالی مشکلات کے باوجود محکمہ پولیس اور سی ٹی ڈی کو آپریشن کے لیے فنڈز فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بلا تعطل جاری رہ سکے۔

خیبرپختونخوا کے بجٹ میں محکمہ پولیس کے لیے 103 ارب روپے رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے (فوٹو: سی ٹی ڈی)

انہوں نے کہا کہ ’محکمہ انسداد دہشت گردی کو جدید سہولیات سے آراستہ کرنے کے لیے نگران وزیراعلیٰ خصوصی ہدایات جاری کر چکے ہیں۔ دہشت گردوں کے خلاف سمارٹ طریقے سے لڑنا ہونا ہو گا  اور اس کا بہترین طریقہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہے۔‘
دوسری جانب خیبرپختونخوا کے بجٹ میں محکمہ پولیس کے لیے 103 ارب روپے رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جس میں اسلحے کے لیے ایک ارب جبکہ بلٹ پروفنگ اور دیگر سہولیات کے لیے ایک ارب 40 کروڑ روپے رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

شیئر: