نیلسن منڈیلا نے سابق انڈین کپتان سنیل گواسکر کو کون سی کتاب تحفے میں دی؟
نیلسن منڈیلا نے سابق انڈین کپتان سنیل گواسکر کو کون سی کتاب تحفے میں دی؟
اتوار 18 جون 2023 10:04
محمود الحسن -لاہور
1997 میں جنوبی افریقہ کے دورے پر آئی انڈین ٹیم کے محمد اظہر الدین اور سچن تندولکر نیلسن منڈیلا سے مل رہے ہیں۔ (فوٹو: اے پی)
1991میں نیلسن منڈیلا سے سنیل گواسکر کا تعارف کروایا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ انہیں عظیم کھلاڑی کی حیثیت سے اچھی طرح جانتے ہیں اور جیل میں اخبارات میں ان کے بارے میں پڑھتے رہے ہیں۔
گواسکر کے لیے یہ نہایت خوشی اور فخر کی بات تھی۔ انہوں نے معزز میزبان سے ملاقات کی یادگار کے طور پر کچھ عنایت کرنے کی درخواست کی۔ منڈیلا نے یہ بات سنی۔ اٹھ کر اپنے کمرے میں گئے۔ واپس پلٹے تو گواسکر کے لیے ان کے ہاتھ میں وہ گلوز تھے جو عظیم باکسر محمد علی کے استعمال میں رہے تھے۔ گواسکر نے سوچا کہ اس سے بہتر تحفہ بھلا اور کیا ہو گا؟، لیکن پھر منڈیلا نے گلوز کے بجائے گواسکر کو امریکی فلسفی جان ڈیوی کی کتاب Theory of the Moral Life دی اور اس پر لکھا:
‘To Sunil, to a great friend whose performance has been a source of inspiration to us all۔’
سیاہ فاموں اور گوروں کے الگ الگ کرکٹ بورڈ ختم کر کے یونائٹیڈ کرکٹ بورڈ تشکیل دیا گیا تو اس موقع پر جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ڈاکٹر علی باقر نے چوٹی کے چند کھلاڑیوں اور صحافیوں کو مدعو کیا جن میں گواسکر بھی تھے۔
منڈیلا اور گواسکر کی ملاقات کی روداد انڈین اخبار ’مڈ ڈے‘ کے علاوہ کئی دوسری جگہوں پر بھی بیان ہوئی ہے۔
نیلسن منڈیلا سے ملنے والے چنیدہ افراد میں ممتاز پاکستانی سپورٹس جرنلسٹ قمر احمد بھی شامل تھے۔ گواسکر اور قمر احمد نے سووتو میں منڈیلا کے گھر ان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر قمر احمد نے عظیم رہنما سے پوچھا کہ انہوں نے کبھی ٹیسٹ میچ دیکھا ہے؟ اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کے بعد منڈیلا کے پاس سامعین کو سنانے کے لیے ایک قصہ بھی تھا۔
جنوبی افریقہ میں سیام فام باشندوں سے ذلت آمیز سلوک ہوتا تھا، اس لیے وہ کرکٹ میچ میں مہمان ٹیم کی حمایت کر کے دل کی بھڑاس نکالتے۔ انہیں عام تماشائیوں کے ساتھ میچ دیکھنے کی اجازت بھی نہیں تھی لہٰذا خاردار تاروں کے پنجرے میں بیٹھ کر اپنا شوق پورا کرتے۔ 1950 میں ڈربن میں آسٹریلیا کے ساتھ ٹیسٹ میچ میں جنوبی افریقہ کی مضبوط پوزیشن سے منڈیلا اور دوسرے سیاہ فام ناخوش تھے۔ آخری دن جیت کے لیے آسٹریلیا کو 256 رنز بنانے تھے جبکہ میزبان ٹیم کو سات وکٹیں درکار تھیں۔ نیل ہاروے نے 151 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر آسٹریلیا کو میچ جتوا دیا۔ جنوبی افریقہ کی ہار کے بعد سیاہ فام لوگ شادیانے بجاتے گھروں کو لوٹے۔
وزڈن (1951) کے مطابق ہاروے کی اننگز غیر معمولی صبر اور مہارت کی حامل تھی جس نے آسٹریلیا کو شاندار کامیابی دلائی اور دیکھنے والوں پر دیرپا تاثر چھوڑا۔ وزڈن نے صحیح لکھا۔ اس سے زیادہ دیرپا تاثر کیا ہو گا کہ 41 سال بعد بھی اس کی یاد ایک تماشائی کے ذہن سے محو نہ ہوئی تھی۔
قمر احمد نے منڈیلا سے ملاقات سے جڑی یادیں دسمبر 2013 میں ڈان اخبار میں تازہ کیں۔ 2020 میں ان کی خود نوشت Far More Than A Game شائع ہوئی، جس کے ایک باب کا عنوان ہے:’میٹنگ ود منڈیلا۔‘
اس سے یہ معلوم ہوا کہ نیلسن منڈیلا آسٹریلوی وزیراعظم باب ہاک کی دعوت پر آسٹریلیا گئے تو ان سے بات چیت کے بیچ نیل ہاروے کی مذکورہ اننگز کا ذکر بھی آیا۔ اس موقع پر ان کی فون پر ہاروے سے بات بھی کروائی گئی۔ منڈیلا کے لیے یہ ایک پُرمسرت لمحہ تھا۔
اس وقت جب ہم یہ مضمون لکھ رہے ہیں نیل ہاروے آسٹریلیا کا معمر ترین ٹیسٹ کرکٹر ہے۔ ڈان بریڈمین کی قیادت میں آسٹریلیا کی جس ٹیم نے 1948 میں انگلینڈ کا دورہ کیا اور ناقابل تسخیر (Invincible) کہلائی، اس کی ہاروے آخری نشانی ہے۔
منڈیلا اور ہاروے کی ٹیلی فونک گفتگو سے ایک اور مثال ذہن میں آ رہی ہے۔ انگلینڈ میں 1999 کے ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کے آل راؤنڈر لانس کلوزنر چھائے رہے۔ پاکستان کے خلاف میچ میں جب جنوبی افریقہ کی پوزیشن پتلی تھی، کلوزنر نے تین چھکوں اور تین چوکوں کی مدد سے 41 گیندوں پر 46 رنز (ناٹ آؤٹ) بنا کر میچ کا پانسہ پلٹ دیا اور مین آف دی میچ ٹھہرے۔ منڈیلا اس کارکردگی سے بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے کلوزنر سے فون پر بات کرنی چاہی۔ علی باقر نے ان کے پرسنل اسسٹنٹ کو بتایا کہ کلوزنر بڑی روانی سے ذولو زبان میں گفتگو کرتا ہے تو پھر دونوں اسی زبان میں ہم کلام ہوئے۔
1991 میں جنوبی افریقہ کی تقریباً 22 برس بعد بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی ہو گئی تھی لیکن 1992 کے ورلڈ کپ میں اس کی شرکت کا امکان خاصا معدوم تھا۔ علی باقر نے ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان کلائیو لائیڈ کو اپنے ہاں بلایا کہ وہ کرکٹر کی حیثیت سے اپنی کامیابی کی داستان سنا کر سیاہ فام بچوں کو انسپائر کر سکیں۔ کلائیو لائیڈ کی منڈیلا سے ملاقات ہوئی تو اس میں موجود ایک صحافی نے منڈیلا سے ورلڈ کپ میں اپنی ٹیم کی شرکت کے بارے میں سوال پوچھا۔ ان کا مختصر جواب تھا: ’بے شک، ہمیں ضرور کھیلنا چاہیے۔‘
یہ الفاظ دنیائے کرکٹ میں پھیل گئے، بات آسٹریلیا تک پہنچی۔ علی باقر کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے جنوبی افریقن کرکٹ بورڈ یا آئی سی سی کی سطح پر ان کی ٹیم کے ورلڈ کپ میں حصہ لینے کے بارے میں کوئی سوچ موجود نہیں تھی لیکن منڈیلا کے لفظوں کی طاقت نے سرعت سے سب کچھ بدل ڈالا۔
کیپلر ویسلز کی کپتانی میں جنوبی افریقہ کی ٹیم ورلڈ کپ کے سیمی فائنل تک پہنچی اور بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلایا۔
جیل میں نیلسن منڈیلا نے اخبارات کےذریعے کرکٹ میں گواسکر کی عظمت کا اندازہ کر لیا۔ زنداں میں کرکٹ کے تعلق سے ایک اور قصہ بھی ہے۔ 1982 میں منڈیلا کو رابن آئی لینڈ سے کیپ ٹاؤن کی ایک جیل میں منتقل کر دیا گیا جہاں 1986 میں آسٹریلیا کے سابق وزیراعظم میلکم فریزر ان سے ملنے آئے تو قیدی کا پہلا سوال تھا: کیا بریڈمین اب بھی زندہ ہے؟ (ڈان بریڈمین کا انتقال 25 فروری 2001 کو ہوا)
1990 میں منڈیلا کی رہائی کے بعد فریزر نے انہیں تحفے میں بیٹ پیش کیا جس پر بریڈمین نے لکھا تھا:
’۔To Nelson Mandela in recognition of a great unfinished innings—Don Bradman‘
منڈیلا کے دل میں بریڈمین کے لیے عظیم کھلاڑی کی حیثیت سے ہی نہیں اس لیے بھی تکریم تھی کہ اس نے 1971 میں آسٹریلیا کا دورہ جنوبی افریقہ منسوخ کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کا موقف تھا کہ آسٹریلیا کو اس وقت تک یہ دورہ نہیں کرنا چاہیے جب تک جنوبی افریقہ غیرنسلی بنیادوں پر ٹیم منتخب نہیں کرتا۔
انگلینڈ کے سابق کپتان مائیک ایتھرٹن نے اپنی خود نوشت ’اوپننگ اپ‘ میں لکھا ہے کہ میچوں میں مہمانوں کی آمد سے کرکٹرز عام طور پر خوش نہیں ہوتے لیکن 1995 میں جنوبی افریقہ سے میچ کے دوران، منڈیلا سے ملنے کے لیے ہم سب بیتاب تھے۔ انہوں نے انگلینڈ کے سیاہ فام فاسٹ بولر ڈیون میلکم کے ساتھ سب سے زیادہ گفتگو کی۔ ایتھرٹن جو ان دونوں کے پاس ہی کھڑا تھا اس نے سنا کہ منڈیلا اسے کہہ رہے تھے ’تم تباہ کار ہو‘، اور میلکم خوشی خوشی سر کو اثبات میں جنبش دے رہا تھا۔
منڈیلا نے طویل عرصہ سیاہ فاموں کے حقوق کی جنگ لڑی۔ ان کا جی جانتا تھا کہ کس کس طرح ان لوگوں کا دل پارہ پارہ ہوتا رہا ہے۔ اس لیے انہیں جب جب موقع ملتا ان کی دل جوئی کرتے۔ ان کا اکرام کرتے۔ عزتِ نفس کا خیال رکھتے۔ ان میں احساسِ تفاخر پیدا کرنے کی سعی کرتے۔
نسل پرستی کی تاریخ میں باسل ڈی اولیورا روشن استعارے کی حیثیت رکھتا ہے جو اپنا ملک چھوڑ کر کرکٹ کھیلنے انگلینڈ چلا گیا تھا۔ وہ سیاہ فام نہیں ’کیپ کلرڈ‘ تھا اور بدقسمتی سے یہ گروہ بھی نسل پرستی کا شکار تھا۔
1968 میں دورہ جنوبی افریقہ کے لیے اسے انگلینڈ کی ٹیم میں شامل کیا گیا تو نسل پرستوں نے آسماں سر پر اٹھا لیا۔ معاملہ اس حد تک بگڑا کہ سیریز ہی منسوخ ہو گئی۔ جنوبی افریقہ کی حکومت چاہتی تھی کہ باسل ڈی اولیورا خود ہی دورے پر جانے سے معذوری ظاہر کر دے، اس مقصد کے لیے اسے خریدنے کی کوشش بھی ہوئی مگر اس نے بکنے سےانکار کر دیا۔
نیلسن منڈیلا کے دورِ صدارت میں وہ کوچنگ کے واسطے جنوبی افریقہ آیا تو اسے ایوان صدر میں دوپہر کے کھانے کی دعوت دی گئی۔ اس نے صدر کے ساتھ مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ ملاقات کے ختم ہونے پر منڈیلا نے کرسی سے اٹھ کر اسے گلے لگایا اور آمد پر شکریہ ادا کیا۔
منڈیلا کے کرکٹ سے تعلق کی بہت سی کہانیوں میں جو کہانی ذاتی طور پر مجھے سب سے زیادہ پسند ہے وہ جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام ٹیسٹ کرکٹر میکھایا نتینی کے بارے میں ہے۔ 2003 کے ورلڈ کپ سے پہلے منڈیلا اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں سے ملے۔ نتینی کے ساتھ الگ سے بات چیت کی۔ اسے کہا کہ ’تمہیں لازمی طور پر اپنے گاؤں واپس جا کر نوجوانوں کو بتانا چاہیے کہ تم سٹار ہو۔ تم کروڑوں لوگوں کی نمائندگی کرتے ہو اور یہ بات اہم ہے کہ وہ جانتے ہوں کہ تم کیا کچھ کر چکے ہو۔ ‘
ان الفاظ نے نتینی کے جذبے بلند کیے اور یہ اس کے سارے کیریئر میں آگے بڑھنے کا وظیفہ بنے رہے۔ منڈیلا نے اس وقت اسے سٹار کہا جب اس کی ٹیم میں جگہ بھی پکی نہ تھی۔ خوئے دل نوازی اسی کو کہتے ہیں۔ نتینی نے اس اعتماد کی لاج رکھی۔ سٹار بن کر دکھایا۔ 101 ٹیسٹ میچ کھیلے۔ 390 وکٹیں حاصل کیں۔ ٹیسٹ میچوں کی سینچری مکمل ہونے پر اسے بہت سے تہنیتی پیغام ملے جن میں نیلسن منڈیلا کا پیغام اہم ترین تھا جنہوں نے اسے دلی مبارک باد دی اور کہا کہ ہمیں اس پر فخر ہے۔