آئی ٹی سیکٹر میں نوجوانوں کے لیے فری لانسنگ سے پیسے کمانا کتنا آسان ہے؟
آئی ٹی سیکٹر میں نوجوانوں کے لیے فری لانسنگ سے پیسے کمانا کتنا آسان ہے؟
پیر 3 جولائی 2023 5:33
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
گوگل کی جانب سے مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ایڈوانس تربیتی پروگرام موجود ہیں۔ (فوٹو: پی آئی ٹی بی)
پاکستان کے شہر گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی فوزیہ عطاالرحمان اپنی دونوں ٹانگوں سے معذور ہیں۔ وہ آئی ٹی سیکٹر میں فری لانس کام کرنے والے ان نوجوانوں میں سے ہیں جو اپنی کام کرنے کی صلاحیت سے زرمبادلہ پاکستان میں لا رہے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’میری سپیشلائزیشن ورڈ پریس اور گرافک ڈیزائننگ ہے۔ میں ایک ویب کے ڈیزائن سے لے کر ہوسٹنگ اور پھر اس کی مینٹینس سمیت سارے کام بخوبی جانتی ہوں۔ میرے سارے کلائنٹس پاکستان سے باہر کے ہیں۔ اور مجھے فری لانسنگ کام کرتے ہوئے پانچ سال ہو گئے ہیں۔ اب اپنے پورے گھر کا خرچہ میں خود اٹھاتی ہوں۔‘
فوزیہ نے سرگودھا یونیورسٹی سے کمپیوٹر میں گریجویشن کی، تاہم نوکری نہ ملنے کی وجہ سے انہیں کچھ وقت بے روزگاری میں گزارنا پڑا۔ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ نے جب پڑھے لکھے نوجوانوں کو تربیت دینے اور فری لانسنگ کے لیے ای روزگار پراجیکٹ متعارف کروایا تو وہ بھی اس کا حصہ بن گئیں۔
اپنی کہانی بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’پہلے سے جو پڑھ رکھا تھا وہ پریکٹیکل نہیں تھا۔ فری لانسنگ کیسے کرتے ہیں۔ فارن کلائنٹس کو کیسے ڈیل کرنا ہے۔ کام کہاں سے لینا ہے یہ سب نہیں پتا تھا۔ جب یہ ساری مہارت سیکھی تو اس کے بعد سے آج تک روز بروز ترقی ہی کر رہی ہوں۔ اب میں نے حال ہی میں موبائل ایپلی کیشن بنانے کا کورس مکمل کیا ہے اور ایک اور مہارت حاصل کر لی ہے۔‘
طلحہ رؤف پتافی کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے انہوں نے گریجویشن الیکٹریکل انجینیئرنگ میں کی تھی۔ جب نوکری کا حصول مشکل ہوا تو فری لانسنگ کا سوچا۔ ڈیجیٹل مارکٹنگ کی مہارت حاصل کی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میری ڈیجیٹل کانٹنٹ اینڈ مارکیٹنگ کی ٹریننگ مکمل ہو رہی تھی تو میرے پاس دو بڑے پراجیکٹ آ چکے تھے جو مجھے تربیت کے دوران ہی ملے تھے۔ گذشتہ دو سالوں میں 36 ہزار ڈالر کما چکا ہوں۔ اور ابھی لگتا ہے کہ یہ شروعات ہے۔‘
ایسی بہت سی کہانیاں آپ کو سننے کو ملیں گی۔ ایسے افراد جنہوں نے نوکری کرنے کے بجائے آئی ٹی کے شعبے کی کوئی مہارت سیکھ کر فری لانسنگ کو اپنا روزگار بنایا۔ پاکستان میں اس وقت مختلف ایسے پراجیکٹ چل رہے ہیں جن میں حکومت خود نوجوانوں کو آئی ٹی کے شعبے میں مہارت سیکھنے کے مواقع فراہم کر رہی ہے۔
فری لانسنگ سکھانے کے پروگرام کون سے ہیں؟
تعلیم چونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی معاملہ ہے اور تمام صوبوں میں پنجاب سب سے زیادہ فری لانسنگ پر توجہ دے رہا ہے۔ تاہم جتنے بھی پروگرام پی آئی ٹی بی نے شروع کیے ہیں ان میں پاکستان بھر سے نوجوانوں کو داخل کیا جاتا ہے۔
چیئرمین پی آئی ٹی بی فیصل یوسف نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارا سب سے کامیاب ای روزگار ٹریننگ پروگرام ہے۔ یہ ایک صوبائی پروگرام ہے۔ اس سال جون کے مہینے تک ہم 55 ہزار نوجوانوں کو ٹریننگ دے چکے ہیں۔ جس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی ٹریننگ کے دوران ہی وہ کام بھی شروع کر دیتے ہیں۔ ان کو سکھایا جاتا ہے کہ کام ڈھونڈنا کیسے ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ 3.7 ارب روپے ان نوجوانوں نے اپنی ٹریننگ کے دوران کمائے ہیں۔ اس میں ایک پہلو اور بڑا حوصلہ افزا ہے کہ ہمارے پاس طالب علموں میں خواتین کی اوسط زیادہ ہے۔ ہمارے پاس 57 فیصد خواتین ہیں۔ جومختلف آئی ٹی پروگرامز کی تربیت لے رہی ہیں۔‘
دوسرے نمبر پر سرکاری پروگرام جو بڑے پیمانے فری لانسرز کو تربیت دے رہا ہے وہ وفاقی پراجیکٹ ہے جو تمام صوبوں میں آئی ٹی کے محکموں کے ذریعے چلایا جا رہا ہے۔ نیشنل فری لانسنگ اینڈ ٹریننگ پروگرام کے نام سے جاری اس پراجیکٹ میں اب تک ساڑھے 11 ہزار نوجوانوں کو تربیت دی جا چکی ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق دوران تربیت ہی یہ فری لانسرز 25 لاکھ ڈالرز کا زر مبادلہ پاکستان میں لے کر آئے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق 150 سے زائد چھوٹی کمپنیاں اس تربیتی پروگرام کے بعد وجود میں آئی ہیں جن میں سے ہر ایک کمپنی کے کم سے کم ملازمین کی تعداد پانچ ہے۔
گوگل کا فری لانسنگ تربیتی پروگرام
اس سال کے آغاز میں گوگل، ٹیک ویلی اور پی آئی ٹی بی نے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت پانچ ہزار نوجوانوں کو گوگل کے تیار کردہ ٹریننگ پروگرامز سے تربیت دی جانی تھی۔ اس معاہدے کے تحت 9 پروگرام آفر کیے گئے۔ جن میں ایڈوانس ڈیٹا اینالسز، سائبر سکیورٹی، ڈیٹا انیلسز، پراجیکٹ مینجمنٹ، آئی ٹی سپورٹ، آئی ٹی آٹومیشن، یو ایکس ڈیزائن اینڈ ڈیجیٹل مارکیٹنگ اینڈ ای کامرس شامل ہیں۔
چیئرمین پی آئی ٹی بی فیصل یوسف نے بتایا کہ ’یہ معاہدہ مارچ کے مہینے میں کیا گیا تھا۔ اور اب یہ پروگرام پورے پنجاب میں رول کر دیا گیا ہے۔ اس وقت تک 2500 سے زائد طالب علم گوگل کے تربیتی پروگرام میں داخلہ لے چکے ہیں۔‘
گوگل کے تربیتی پروگرام میں داخلہ لینے کا طریقہ کار کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہم نے مختلف کالجز اور یونیورسٹیز کو کہا ہے کہ وہ اپنے حساب سے ہمیں فہرستیں فراہم کریں۔ ایک ادارے کو کم سے کم 100 اور زیادہ سے زیادہ 500 سیٹیں دی گئی ہیں۔ اور اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے کہ ہر ضلعے سے طالب علم شریک ہوں تاکہ سب کا فائدہ ہو۔‘
خیال رہے کہ گوگل کی جانب سے مختلف ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر ایڈوانس تربیتی پروگرام موجود ہیں جو کہ پیسے دے کر کوئی بھی سیکھ سکتا ہے۔ کوریسیرا نامی آن لائن پلیٹ پر موجود گوگل کے یہ 9 پروگرام جن کی مالیت 100 ڈالر سے 500 ڈالر تک ہے وہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان پانچ ہزار نوجوانوں کو سکالرشپ کی مد میں مفت فراہم کیے جا رہے ہیں۔