Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل میں 'عدالتی نظرثانی'  قانون کا عرب شہریوں پر اثر

'یہ انتہائی آمرانہ طرز حکومت ہے اگر آپ کردار کو دیکھیں تو یہ مذہبی صہیونیت ہے'
اسرائیل میں گذشتہ کئی ماہ سے جاری جمہوریت نواز مظاہروں کے باوجود پیر کے روز اسرائیلی قانون سازوں نے 'عدالتی نظرثانی'  کا قانون نافذ کرنے کے لیے ووٹ دیا۔
عرب نیوز کے مطابق اس فیصلے کو اسرائیلی معاشرے کے مختلف طبقات کی جانب سے فوری ردعمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عدالتی طاقت پر یہ نئی پابندیاں بہت کم اور اکثر تکلیف دہ حد تک ناکافی ہیں جن کے ذریعے اسرائیل کے عرب شہری ملک میں انصاف حاصل کر سکتے ہیں۔
اسرائیل میں حزب اختلاف کے سرکردہ سیاستدانوں نے عرب شہریوں کو اس کے اثرات کے بارے میں خبردار کیا ہے جسے وہ ملک میں جمہوریت کے زوال کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
واضح رہے کہ رواں سال مارچ میں اسرائیل میں لینڈ ڈے کی یاد میں نکالے گئے مارچ کے دوران ڈیموکریٹک فرنٹ فار پیس اینڈ ایکویلیٹی پارٹی کی رکن عائدہ توما سلیمان نے کہا ہے کہ ان اصلاحات سے عربوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔
فلسطینی مصنف اور مبصر رمزی بارود نے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کی سپریم کورٹ کو انصاف کے  نفاذ کے طور پر کام کرنا چاہیے اور ایسے قوانین کو ختم کرنا چاہیے جو امتیازی یا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے اسرائیل کے 2018 کا قومی ریاستی قانون برقرار رکھا ہے۔ فوٹو عرب نیوز

اسرائیل میں زیادہ تر امتیازی قوانین کو عرب اور عرب نواز سول سوسائٹی اور قانونی تنظیموں نے چیلنج کیا اور قانونی چارہ جوئی کی پھر بھی ان قوانین میں سے ہر ایک کی سپریم کورٹ اور اسرائیل کی دیگر عدالتوں  نے توثیق کی۔
رمزی بارود نے  واضح کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے اسرائیل کے 2018 کے قومی ریاست کے قانون کو برقرار رکھا ہے اور یہ عربوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق، ان کی ثقافت اور زبان کی تذلیل کی ہے۔
اسرائیلی وزیر انصاف یاریو لیون نے  قوانین میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں جنوری میں  متعارف کرائی تھیں جس کے تحت حکومت سپریم کورٹ کے جسٹس کی تقرری کا مکمل کنٹرول حاصل کر لے گی۔
عدالتوں کو ملک کے بنیادی قوانین کے خلاف دلائل سننے کی اجازت نہیں ہوگی جو اسرائیل کے آئین کے طور پر کام کرتی ہیں۔

یہ عربوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق، ثقافت اور زبان کی تذلیل کی ہے۔ فوٹو عرب نیوز

سپریم کورٹ کے فیصلے جو قوانین کو کالعدم قرار دیتے ہیں اسرائیل کی پارلیمنٹ منظوری کے لیے اکثریتی ووٹ کے بعد رد کر سکتی ہے۔
اگرچہ اصلاحات کا عمل مارچ کے آخر میں بات چیت کی اجازت دینے کے لیے روک دیا گیا تھا لیکن حکومت اور مختلف اپوزیشن جماعتیں کسی سمجھوتے تک پہنچنے میں ناکام رہی تھیں۔
24 جولائی کو اصلاحاتی پیکج کا سیکشن جس میں سپریم کورٹ کو حکومتی فیصلوں کو کالعدم قرار دینے کی اجازت دی گئی ہے مفاد عامہ کے خلاف تھے۔
بہت سے اسرائیلی اب یہ سمجھتے ہیں کہ حکومت جو کچھ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اس کا مقصد ہے کہ زیادہ تر طاقت حکومت کے ہاتھ میں ہو۔

  قانون سازوں نے'عدالتی نظرثانی'  کا قانون نافذ کرنے کے لیے ووٹ دیا۔ فوٹو عرب نیوز

بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر یوسی میکلبرگ کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی آمرانہ طرز حکومت ہے اگر آپ کردار کو دیکھیں تو یہ مذہبی صہیونیت ہے۔
رمزی بارود کے مطابق نام نہاد عدالتی تبدیلی کے خلاف بڑے پیمانے پر شور مچانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ اسرائیل میں اقلیتی گروہوں سے زیادہ متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اسرائیل میں موجودہ 'بحران' اس حقیقت سے ابھارا گیا تھا کہ اسرائیلی حکومت اب اسرائیلی قوانین میں ردو بدل کر رہی ہے تاکہ دوسرے اسرائیلی یہودی گروہوں پر اپنی برتری کو یقینی بنایا جا سکے۔

شیئر: