Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

 اسرائیل میں حکومت مخالف مظاہروں میں نئی جان پڑ گئی

مظاہرین نے تل ابیب کے پولیس سربراہ امی ایشد کی معزولی کی بھی مذمت کی۔ فوٹو عرب نیوز
اسرائیل میں جاری حکومت مخالف احتجاجی تحریک نے گذشتہ رات اس وقت نئی رفتار پکڑ لی جب ہزاروں افراد مختلف شہروں کی سڑکوں پر نکل آئے اور بینجمن نیتن یاہو کے عدالتی نظام کو تبدیل کرنے کے متنازعہ منصوبے کی مخالفت کی۔
امریکی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وزیراعظم نیتن یاہو کی حکومت کی جانب سے عدالتی نظام میں اصلاحات پر اقدامات  کے آغاز کے بعد نچلی سطح کی تحریک چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے احتجاج کر رہی ہے۔
نیتن یاہو حکومت کی طرف سے آئندہ ہفتے پارلیمنٹ میں نظرثانی کے ساتھ عدالتی نظام میں ترامیم کے بل کو آگے بڑھانے کے منصوبے کے علاوہ تل ابیب کے پولیس چیف کی برطرفی (جن پر مظاہرین کے ساتھ ہمدردی رکھنے کا الزام تھا) نے احتجاجی مظاہروں میں نئی ​​جان ڈال دی ہے۔
بیت المقدس اور دیگر شہروں میں بڑی ریلیوں کے ساتھ تقریباً  ڈیڑھ لاکھ افراد سنیچر کی رات مرکزی تل ابیب میں جمع ہوئے ہیں۔  
درجنوں افراد نے تل ابیب کی مرکزی شاہراہ پر رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی جو پولیس نے فوری طور پر ہٹا دیں، اس دوران ہونے والی جھڑپوں میں پولیس نے مظاہرین پر واٹر کینن کا استعمال کیا ہے۔
واضح رہے کہ نیتن یاہو کے اتحادیوں نے اسرائیلی قانونی نظام میں کئی تبدیلیوں کی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد غیرمنتخب ججوں کے حد سے زیادہ اختیارات کو کمزور کرنا ہے۔

اسرائیل کے ریزرو فوجی افسران احتجاجی مظاہروں میں شامل ہیں۔ فوٹو اے پی

مجوزہ تبدیلیوں میں نیتن یاہو کے اتحادیوں کو ججوں کی تقرری پر کنٹرول اور عدالتی فیصلوں کو کالعدم کرنے کا اختیار دینا شامل ہے جن کی وہ حمایت نہیں کرتے۔
دوسری طرف حکومت مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ملک کے چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو تباہ کر دے گا اور طاقت نیتن یاہو اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔
اسرائیل کے ریزرو فوجی افسران، کاروباری رہنما، ایل جی بی ٹی اور دیگر اقلیتی گروپوں سمیت مختلف طبقہ ہائے زندگی کے افراد  وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہروں میں شامل ہیں۔

قومی سلامتی کے وزیر نے پولیس سےسخت رویہ کا مطالبہ کیا ہے۔ فوٹو اے پی

مظاہرین نے تل ابیب کے پولیس سربراہ امی ایشد کی معزولی کی بھی مذمت کی، جنھوں نے اس ہفتے کہا تھا کہ وہ مظاہرین کے خلاف پرتشدد کارروائی کرنے کے لیے سیاسی دباؤ کی وجہ سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے۔
ایشد کی قومی سلامتی کے سخت گیر وزیر ایٹامار بین گویر کے ساتھ باقاعدگی سے جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔
قومی سلامتی کے وزیر نے مہینوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف پولیس سے سخت موقف اختیار کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

شیئر: