Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کے لیے قائم ’امن کمیٹیاں‘ غیر فعال کیوں؟

ایف آئی آر میں ایسی شخصیت کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے جو خود امن کمیٹی کے رکن ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے ضلع فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے معاملے پر پرتشدد واقعات نے دنیا بھر سے توجہ سے حاصل کر لی ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ نے بھی چرچ جلائے جانے کے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پنجاب کی نگراں حکومت نے واقعے میں ملوث دو مرکزی ملزمان کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے تاہم ایک بنیادی سوال اُٹھتا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت کے پاس ٹھوس لائحہ عمل کیوں نہیں ہے؟
گذشتہ کئی دہائیوں سے نچلی سطح پر مذہبی ہم آہنگی قائم کرنے اور کدورتوں کو ختم کرنے کے لیے امن کمیٹیاں قائم ہیں لیکن اس کے باوجود گوجرہ، جوزف کالونی اور اب جڑانوالہ جیسے واقعات جب پھوٹتے ہیں تو کسی کوکچھ سجھائی نہیں دیتا۔
امن کمیٹیاں بنیادی طور پر ہر ضلعی اور تحصیل کی سطح پر کام کر رہی ہیں۔ ضلعے کا ڈپٹی کمشنر ایک کمیٹی تشکیل دیتا ہے جس میں اس ضلع میں رہنے والے تمام مذاہب اور مسالک کے عمائدین شامل ہوتے ہیں جو کسی بھی مذہبی تہوار پر حکومت کے ساتھ اکھٹے بیٹھ کر اس کے معاملات کو خوش اُسلوبی سے طے کرتے ہیں۔
اس حد تک تو یہ کمیٹیاں کارآمد ہیں البتہ دیگر مذاہب کے معاملے پر ان کی افادیت پر ہمیشہ سوالیہ نشان رہا ہے۔ اب یہ امن کمیٹیاں تحصیل کی سطح پر بھی کام کر رہی ہیں۔
جڑانوالہ واقعے کے خلاف درج ایف آئی آر میں ایسی شخصیت کو بھی ملزم نامزد کیا گیا ہے جو خود امن کمیٹی کے رکن ہیں۔
جڑانوالہ سے مسیحی برادری کی فلاح بہبود کے لیے کام کرنے والے اکمل بھٹی سمجھتے ہیں کہ یہ امن کمیٹیاں ’صرف نام کی‘ ہیں۔
 

مسیحی برادری کی فلاح بہبود کے لیے کام کرنے والے اکمل بھٹی سمجھتے ہیں کہ یہ امن کمیٹیاں ’صرف نام کی‘ ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مسیحیوں کے ساتھ ہونے والے واقعات جو پچھلے چند برسوں میں پیش آئے اُنہیں دیکھ لیں کہیں بھی کسی امن کمیٹی کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ایک تو اس کمیٹی کی کوئی وقعت نہیں یہ کمزور ہے اور یہ ایسے معاملات کے لیے ہے جو شہری نوعیت کے ہیں۔‘
ان کے بقول ’جہاں لوگ ایک منصوبہ بندی کے ساتھ حملہ آور ہوں وہاں تو پولیس بے بس ہو جاتی ہے امن کمیٹی کیا بیچتی ہے؟ امن کمیٹیاں ایک ایسا بندوبست ہیں جہاں کسی ہلکی نوعیت کے تنازعے کو ایک پنچائیت کی صورت حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘
لاہور کے سابق امن کمیٹی کے رکن قاری سیف اللہ نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کمیٹیوں کی افادیت اس وقت ہو گی جب ان کی کوئی قانونی حیثیت ہو گی اور ان میں پسند ناپسند کے بجائے کسی طریقہ کار کے تحت ایسے لوگوں کو رکھا جائے جو عوام میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ ورنہ یہ صرف خانہ پوری ہے۔‘
موجودہ انتظامی ڈھانچے میں امن کمیٹیوں کو یونین کونسل کی سطح تک بڑھا دیا گیا ہے اور ایک یونین کونسل کی امن کمیٹی اس کے تھانے کا ایس ایچ او تشکیل دیتا ہے۔
پنجاب کے وزیر اطلاعات عامر میر کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’کچھ واقعات اتنے اچانک اور بڑے ہوتے ہیں کہ امن کمیٹی تک معاملہ پہنچتے ہی دیر ہو جاتی ہے۔ ان کمیٹیوں کی بڑی افادیت ہے اور انہوں نے بڑے بڑے مسائل حل کیے ہیں کیونکہ اس میں سب مذاہب کی نمائندگی ہوتی ہے اور ایک دوسرے کے لیے احترام ہوتا ہے۔‘

شیئر: