پوتن کے شیف سے ویگنر کے سربراہ تک، پریگوژن کی شخصیت کے مختلف روپ
پوتن کے شیف سے ویگنر کے سربراہ تک، پریگوژن کی شخصیت کے مختلف روپ
جمعرات 24 اگست 2023 9:16
یوگینی پریگوژن کو ’پوتن کے شیف‘ کے طور پر جانا جاتا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
یوگینی پریگوژن کی قسمت کئی دہائیوں سے روس کے صدارتی دفتر کریملن کے ساتھ ہی جڑی ہوئی تھی، بطور سرکاری کنٹریکٹر اور روسی ملیشیا گروپ ویگنر کے سربراہ کے طور پر یوکرین جنگ میں بھی حصہ لیا اور روسی حکومت کے احکامات پر شام اور افریقہ میں بھی کردار ادا کیا۔
خبر رساں ادارے ایسوی ایٹڈ پریس کے مطابق جب تقریباً دو ماہ قبل یوگینی پریگوژن نے اپنی ملیشیا کو ماسکو کے مدمقابل لا کھڑا کیا، تو تب ہی روس اور اس سے آگے معتبر حلقوں میں سوال اٹھنا شروع ہو گئے کہ صدر ولادیمیر پوتن کی مخالفت مول کر پریگوژن آخر کب تک ہی بچ سکتا ہے۔
ویسے تو پریگوژن نے اپنے اور بغاوت میں ملوث ساتھیوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کی فراہمی کے لیے پوتن اور بیلاروس کے صدر سے معاہدہ کیا تھا۔ لیکن پھر بدھ کو روسی ایوی ایشن ایجنسی کی جانب سے خبر سامنے آئی کہ ماسکو کے شمال میں گر کر تباہ ہونے والے جہاز میں پریگوژن بھی سوار تھے۔ نجی جہاز میں موجود تمام دس مسافر ہلاک ہو گئے ہیں۔
یوگینی پریگوژن نے سنہ 1981 میں چوری اور حملے کے جرم میں 12 سال قید کی سزا کاٹی تھی۔ جیل سے رہائی پر انہوں نے سینٹ پیٹرزبرگ میں ایک ریستوران کھولا۔ اس وقت ولادیمیر پوتن نائب میئر کے طور پر فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
پریگوژن نے ولادیمیر پوتن کے ساتھ واقفیت کو اپنے کیٹرنگ کے کاروبار کو فروغ دینے اور حکومتی کنٹریکٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جس کے بعد انہیں ’پوتن کے شیف‘ کے طور پر جانا جانے لگا۔
لیکن پریگوژن صرف ریستوران کی حد تک محدود نہیں رہے بلکہ دیگر شعبوں بشمول میڈیا میں بھی اپنی قسمت آزمائی یہاں تک کہ امریکہ کے 2016 کے صدارتی انتخابات میں انہیں دخل اندازی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
سینٹ پیٹرزبرگ میں ویگنر سینٹر کے باہر شہری پریگوژن کی یاد میں پھول رکھ رہے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
اپریل 2014 میں کریمیا کے روس کے ساتھ انضام کے چند ہفتوں بعد پہلی مرتبہ پریگوژن کا ویگنر ملیشیا متحرک نظر آیا۔ اس وقت روس نے ثبوت کے باوجود اپنے ہتھیار اور فوجی بھیجنے سے انکار کیا تھا۔
پریگوژن نے اپنے نیم فوجی دستے شام میں بھی تعینات کیے جب خانہ جنگی کے دوران روس صدر بشارالاسد کا ساتھ دے رہا تھا۔
لبیا میں بھی ویگنر کے فوجی دستے باغی لیڈر جنرل خلیفہ ہفتر کے ہمراہ لڑ چکے ہیں جبکہ سنٹرل افریقی ریپبلک اور مالی میں بھی آپریشن میں ملوث رہے ہیں۔
لیکن ستمبر 2022 تک پریگوژن نے اعتراف نہیں کیا تھا کہ ویگنر کو بنانے کے علاوہ اس کی صدارت اور مالی اعانت بھی کرتے ہیں۔
یوگینی پریگوژن جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کے لیے روسی جیلوں کا دورہ کرتے تھے اور قیدیوں کو لالچ دیتے تھے کہ اگر فرنٹ لائن پر چھ ماہ کی ڈیوٹی کے بعد زندہ بچ گئے تو ان کی سزا معاف کر دی جائے گی۔
رواں سال مئی میں ایک انٹرویو کے دوران پریگوژن نے 50 ہزار مجرموں کو بھرتی کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور کہا تھا کہ ان میں سے 35 ہزار افراد مسلسل فرنٹ لائن پر تعینات ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بخموت کی جنگ کے دوران 20 ہزار سے زائد جنگجو ہلاک ہوئے جن میں سے نصف جیلوں میں قید کاٹنے والے مجرم تھے۔
امریکہ کے مطابق ویگنر کے 50 ہزار افراد یوکرین میں لڑ رہے تھے جس میں 10 ہزار کنٹریکٹر اور 40 ہزار مجرم شامل ہیں۔
رواں سال جنوری میں پریگوژن نے یوکرین کے نمک کی کانوں والے شہر سولیڈر پر قبضے کی مکمل ذمہ داری لی تھی اور روسی وزارت دفاع پر الزام عائد کیا تھا کہ ویگنر کی کامیابی کو اپنی فتح کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
یوگینی پریگوژن نے جون میں ماسکو کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
انہی دنوں پریگوژن یہ بھی شکایت کرتے نظر آئے کہ بخموت پر قبضے کے دوران روسی فوج نے ویگنر کو ناکافی ہتھیار سپلائی کیے اور بعد میں جنگجو نکالنے کی دھمکی دی۔
23 جون کو پریگوژن نے وزیر دفاع کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کے ہمراہ یوکرین سے ماسکو کی طرف مارچ شروع کر دیا تھا۔ ویگنر کے دستوں نے یوکرین کے ساتھ سرحد پر واقع روسی شہر روستوف اون دون میں عسکری ہیڈ کوارٹر کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا تھا اور مارچ جاری رکھتے ہوئے روسی دارالحکومت سے 200 کلو میٹر کی دوری پر پڑاؤ ڈالا۔
صدر ولادیمیر پوتن نے پریگوژن کو باغی قرار دیا لیکن بعد میں ویگنر کے سربراہ کے خلاف الزامات ختم کر دیے گئے تھے۔
بغاوت کے کئی دن بعد کریملن کی جانب سے بیان جاری ہوا کہ صدر پوتن اور ویگنر کے سربراہ کے درمیان تین گھنٹے طویل ملاقات ہوئی ہے۔
اس ملاقات کے بعد ویگنر کے کچھ جنگجوؤں نے بیلاروس کا رخ کیا لیکن پریگوژن اور ان کے نیم فوجیوں کے مستقبل کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا رہا۔
کچھ ہی عرصہ پہلے امریکی صدر جو بائیڈن نے پریگوژن کے حوالے سے کہا تھا کہ ’اگر میں اس کی جگہ ہوتا، تو کھانے پینے میں بھی انتہائی محتاط ہوتا۔ نظریں اپنے مینیو پر رکھتا۔‘