Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جزیرہ عرب میں ’شکاری چیتے‘ کی موجودگی کے دعوے درست ہیں؟

رفحا کے غار سے 60 سے زیادہ شکاری چیتوں کی ممیز دریافت ہوئی تھیں (فوٹو سبق)
مشرقی علوم کے تین مغربی ماہرین اور سیاحوں نے سینکڑوں برس قبل مہم جوئی کے دوران جزیرہ عرب میں ’شکاری چیتے‘  کی موجودگی کے دعوے کیے ہیں۔ 
سبق ویب سائٹ کے مطابق دو جرمن اور فن لینڈ کے ایک سیاح نے اپنے سیاحت ناموں میں شکاری چیتے کا تذکرہ کیا ہے۔  یہ تقریباً ساٹھ برس سے جزیرہ عرب سے معدوم ہو چکا ہے۔ 
20 ستمبر 1845 میں فن لینڈ کے سیاح جارج اوگیٹس ویلن نے حائل شہر پہنچنے پر سیاحتی مشاہدات کے ضمن میں تحریر کیا کہ انہوں نے  حائل میں شکاری چیتا دیکھا ۔ یہ پہلے یورپی سیاح اور مہم جو ہیں جو 19 ویں صدی عیسوی کے دوران شمالی جزیرہ عرب آئے تھے اور پورے علاقے کو دریافت کرنے کی کوشش کی تھی۔
24 دسمبر 1883 کو جرمن سیاحی  جیولیس اوٹینگ نے تحریر کیا  کہ ’حائل شہر کے اجا پہاڑوں میں شکاری چیتے کا مشاہدہ کیا ہے۔ جرمن سیاح اوٹینگ مشرقی علوم کے ماہر ان سیاحوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے جزیرہ عرب کے شمال اور شمال مغرب کی سیاحت کی تھی۔ وہ قدیم سامی نقوش کے کتبوں کے نمایاں ترین ماہر مانے جاتے ہیں۔‘ 
1926 کے دوران مشرقی علوم کے جرمن ماہر کارل ریسون نے اپنی کتاب میں عرب علاقوں کے سیاہ خیموں کی تصویر شائع کی جس میں الرولہ قبیلے کا ایک شخص چیتے کو پکڑے ہوئے ہے اور اس کے پہلو میں اس کا بچہ بھی نظر آ رہا ہے۔ 
جرمن ماہر کا کہنا ہے  ’عرب شہری نے مذکورہ چیتے کا شکار نفود صحرا اور طبیق پہاڑ کے درمیانی علاقے سے کیا تھا۔‘ 
سعودی عرب میں جنگلی حیاتیات کی افزائش و تحفظ کے قومی ادارے نے اعلان کیا تھا کہ ’اسے رفحا کمشنری کے جنوب میں واقع ایک غار سے 60 سے زیادہ شکاری چیتوں کی نعشیں اور ممیز ملی تھیں۔‘ 
 
 
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے اردو نیوز گروپ جوائن کریں
 

شیئر: