جیل سے رہائی کے بعد نوجوان کی ہلاکت، ’سوات پولیس نے دورانِ حراست تشدد کیا‘
ڈی پی او سوات کے مطابق ’منشیات فروش مافیا نوجوان کی ہلاکت کا الزام لگا کر عوام کو پولیس کے خلاف اُکسا رہا ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سوات کی تحصیل مٹہ میں 26 اگست کو جیل سے رہائی پانے کے بعد نوجوان ثنا اللہ کی موت واقع ہوگئی۔
لواحقین نے 30 اگست کی صبح مٹہ میں لاش سڑک پر رکھ کر پولیس کے خلاف احتجاج کیا اور الزام لگایا کہ ثنا اللہ کو چند روز قبل پولیس چوری کے الزام میں گرفتار کرکے لے گئی تھی۔
ان کے مطابق ’چار دن پہلے ثنا اللہ کو رہا کیا گیا، تاہم رہائی کے وقت ثنا اللہ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور اس کے جسم پر تشدد کے نشانات موجود تھے۔‘
احتجاج کے دوران لواحقین نے پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
سوات کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) شفیع اللہ گنڈاپور نے موقف اپنایا کہ ’پولیس نے نوجوان کو چوری کے الزام میں 6 اگست کو گرفتار کیا تھا جسے 7 اگست کو عدالت نے جیل بھیج دیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ملزم 26 اگست تک جیل میں موجود تھا اور جیل سے ہی اسے رہائی ملی، پولیس کا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
ڈی پی او سوات نے بتایا کہ ’منشیات فروش مافیا نوجوان کی ہلاکت کا الزام لگا کر عوام کو پولیس کے خلاف اُکسا رہا ہے۔‘
شفیع اللہ گنڈاپور نے مزید کہا کہ ’سڑک بند کرنے والے کچھ غیر متعلقہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب ضلعی افسران سے مذاکرات کرکے لواحقین احتجاج ختم کرکے لاش کی تدفین پر راضی ہوگئے ہیں۔