Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرک میں ’شرارتیں‘ کرنے والا 8 سالہ افغان بچہ ظلم کا نشانہ کیسے بن گیا؟

یہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کا علاقہ سرٹ خیل ہے، بچے اپنی شرارتوں میں مگن ہیں، وہ کبھی مٹی کے گھروندے بناتے اور کبھی توڑتے ہیں۔
کبھی چُھپن چُھپائی کھیلتے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کو دھکا دے کر رفوچکر ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی ان معصومانہ شرارتوں سے پورے علاقے میں رونق رہتی ہے۔
ہم عمر بچے سکول سے واپسی پر گھر کے قریب میدان میں جمع ہو جاتے اور خوب کھیل کھیلتے اور شور مچاتے۔
والدین دوپہر کے کھانے پر بلاتے مگر وہ سکول کے یونیفارم میں ہی اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے بھاگ جاتے۔
کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ بچوں کی ان شرارتوں کا انجام اس قدر دردناک اور بھیانک ہو گا کہ ہر آنکھ اشکبار ہو جائے گا۔
ہوا یوں کہ ایک بچے کی شرارتیں کسی بڑے کو ناگوار گزریں اور وہ اس کے ظلم کا نشانہ بن گیا۔
ملزم کا خیال تھا کہ وہ بچ جائے گا، پولیس سے مگر اس کی آنکھ مچولی زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکی اور بالآخر صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں ہونے والے اس بہیمانہ قتل کا ڈراپ سین ہو گیا۔
ضلع کرک کے علاقے سرٹ خیل میں 29 اگست کو کھیتوں سے ایک بچے کی تشدد زدہ لاش ملی جسے چُھری کے وار کر کے قتل کیا گیا تھا۔
ایک بچے کی خون میـں لت پت لاش دیکھ کر پولیس حکام بھی چکرا گئے جب کہ جائے وقوعہ پر بھی ایسے کوئی شواہد موجود نہیں تھے جس سے ملزم کا پتہ لگ سکتا۔
پولیس حکام نے ہنگامی بنیادوں پر تھانہ سرٹ خیل میں بچے کے قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرکے اس کی تلاش کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دیں۔
 تفتیشی ٹیم نے نہ صرف مختلف زاویوں سے تفتیش کی بلکہ تفتیش کا دائرہ کار بھی بڑھایا جس کے باعث ایک ملزم کو ٹھوس شواہد کی بنا پر گرفتار کر لیا گیا جس نے بعدازاں اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا۔
پولیس کا مؤقف
ڈسٹرکٹ پولیس افسر کرک سجاد احمد کے مطابق 8 سالہ بچے واجد خان کا تعلق افغانستان سے ہے جسے انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’پولیس کی تفتیشی ٹیم نے پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا اور مبینہ مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے میں کامیاب رہی۔‘
پولیس افسر نے مزید کہا کہ ’ملزم کا نام یونس نواز ہے جس کی عمر 17 سال ہے جو مقتول بچے کا ہمسایہ ہے۔ ملزم سے آلۂ قتل اور خون آلود کپڑے بھی برآمد کر لیے گئے ہیں۔‘ 
بچے کو قتل کرنے کی وجہ کیا بنی؟ 
ڈی پی او کرک سجاد احمد کے مطابق ملزم نے اپنے بیان میں بتایا کہ یہ بچہ بہت شرارتی تھا اور گلی محلے کے بچوں سے اکثر لڑتا رہتا تھا۔
’بچے کی شرارتوں کی وجہ سے میرے چھوٹے بھائی بہن بھی اس سے تنگ تھے۔ میں نے وقوعہ کے روز بچے کو شرارتوں سے باز رہنے کے لیے بہت سمجھایا مگر جب وہ نہیں مانا تو قتل کر دیا۔‘
ڈی پی او نے مزید کہا کہ ’میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچے کے ساتھ جنسی زیادتی نہیں کی گئی تھی، تاہم بچے پر قتل سے قبل تشدد کیا گیا تھا۔‘
’ملزم کا ایک اور ساتھی بھی گرفتار کیا جا چکا ہے جو قتل کے دوران جائے وقوعہ پر موجود تھا اور اس نے بچے کو قتل کیے جانے کے وقت اس کے پاؤں پکڑے تھے۔‘ 
ڈی پی او سجاد احمد کا کہنا تھا کہ ’ملزموں کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا جس نے انہیں مزید تفتیش کے لیے پولیس کے حوالے کر دیا ہے اور اب ان سے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔‘
واضح رہے کہ 8 سالہ افغانی بچے کے قتل کے بعد لواحقین اور مقامی شہریوں نے لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا تھا جس کا ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) نے فوری نوٹس لیا تھا۔ 

شیئر: