’ڈیتھ اینجل‘، وہ نرس جو محبوب سے ملنے کے لیے مریض قتل کرتی رہی
’ڈیتھ اینجل‘، وہ نرس جو محبوب سے ملنے کے لیے مریض قتل کرتی رہی
جمعہ 8 ستمبر 2023 6:31
جاوید مصباح -اردو نیوز، اسلام آباد
کرسٹن گلبرٹ کے دور ملازمت میں 350 مریض پراسرار طور پر ہلاک ہوئے (فوٹو: میڈیکل بیگ)
ان کی ڈیوٹی آئی سی یو میں تھی وہ پریشان لگ رہی تھیں۔ ساتھی نرسوں کا خیال تھا کہ وہ بوائے فرینڈ سے ملنے کے لیے بے چین ہیں۔
اسی لمحے انہوں نے سپروائزر سے پوچھا کہ ’اگر اندر موجود مریض مر جائے تو مجھے کچھ جلدی چھٹی مل سکتی ہے؟‘
’ہاں‘ میں ملنے والے جواب کے تھوڑی دیر بعد ہی مریض انتقال کر گیا۔
اس کے بعد امریکہ کی شمال مشرقی ریاست میساچوسیٹس کے وی اے ایم سی (ویٹرن افیئرز میڈیکل سینٹر) کے سی وارڈ میں عمررسیدہ مریضوں کے پے در پے انتقال کے واقعات ہونے لگے۔
تحقیقات پر ایک ایسا انکشاف ہوا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔
’دی کلنگ فیلڈ‘ اور جرائم کے حوالے سے رپورٹس دینے والی ویب سائٹس پر ایک ایسی سیریل کلر کے بارے میں تفصیلات بتائی گئی ہیں جس کو ’ڈیتھ اینجل‘ بھی کہا جاتا ہے۔
وہ عام سی بچی تھی
13 نومبر 1967 کو پیدا ہونے والی کرسٹن ہیتھر گلبرٹ بھی عام بچیوں جیسی تھی۔ تاہم سکول کے دنوں میں کچھ تبدیلی دیکھی گئی اور ان کے بارے میں شکایات سامنے آئیں کہ وہ دوسرے بچوں کی چھوٹی موٹی چیزیں چوری کر لیتی ہیں جبکہ ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولنے میں طاق تھیں۔ انہوں نے اپنے کلاس فیلوز کو والدین کے بارے میں ایسی باتیں بتائیں جو بعدازاں سفید جھوٹ ثابت ہوئیں۔
وقت گزرتا رہا اور 1986 میں انہوں نے نرسنگ کا ڈپلومہ حاصل کر لیا۔
خوش مزاج اور شوخ نرس
1989 میں جب کرسٹن گلبرٹ نے میڈیکل سینٹر میں ملازمت شروع کی تو اس وقت وہ انتہائی خوبصورت، خوش مزاج اور مستعد نرس کے طور پر سامنے آئیں۔ باقی سٹاف کے ساتھ گھلنے ملنے میں بھی بہت کم وقت لگایا انہیں ساتھی ورکروں کے برتھ ڈیز یاد رہتے اور دوران ڈیوٹی کیک وغیرہ کا انتظام بھی وہی کرتیں۔ وہ اپنے کام کی بھی ماہر تھیں کچھ عرصہ بعد انہوں نے گلین گلبرٹ سے شادی کر لی اور بعدازاں دو بچوں کی ماں بھی بنیں۔
بوائے فرینڈ کی انٹری
کرسٹن گلبرٹ دوسرے بچے کی پیدائش پر میٹرنٹی لیوز کے بعد 1993 میں واپس ڈیوٹی پر آئیں تو ان دنوں میڈیکل سینٹر میں جیمز پیرالٹ نام کا گارڈ بھرتی کیا جا چکا تھا جس کی ڈیوٹی ہنگامی صورت حال میں وارڈز میں جا کر صورت حال کو دیکھنا ہوتا تھا۔
کرسٹن گلبرٹ اور جیمز پیرالٹ کے درمیان دوستی جلد ہی ہو گئی اور ڈیوٹی کے بعد دونوں اکٹھے ڈرنک کرتے بھی دیکھے جانے لگے۔ ڈیوٹی کے دوران بھی کبھی کبھی آمنا سامنا ہو جاتا مگر ہنگامی صورت حال جیسے کسی مریض کی حالت بگڑ جانا یا جان سے گزر جانے کی صورت میں گارڈز کو طلب کیا جاتا۔
قتل کیوں شروع ہوئے
تحقیقات میں شامل بعض ماہرین کا خیال ہے کہ کرسٹن نے اس وجہ سے مریض مارنا شروع کیے کہ اس کے بعد دونوں کی ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ تاہم کچھ عرصے تک اس طرف کسی نے خاص توجہ دی۔
مریضوں کی پے در پے ہلاکتوں کے بعد جہاں بعض ساتھی نرسوں نے کرسٹن گلبرٹ کو ازراہ تفنن ’موت کا فرشتہ‘ کہنا شروع کیا وہیں کچھ نرسوں کو تشویش ہوئی کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور ان میں سے کسی ایک نے یہ بات انتظامیہ کو بتا دی جس کے بعد تحقیقات شروع ہوئیں اور معاملہ پولیس تک پہنچا انہیں شامل تفتیش کر لیا گیا تاہم حراست میں نہیں لیا گیا جبکہ ہسپتال نے بھی تحقیقات کا نتیجہ آنے تک رخصت پر بھیج دیا۔
ریکارڈ سامنے آنے پر پتہ چلا کہ کرسٹن کے ہسپتال جوائن کرنے کے بعد سات سال میں ان کی ڈیوٹی کے دوران کُل 350 مریض جان سے گئے جو گزرے برسوں کی شرح کی مناسبت سے بہت زیادہ تعداد تھی اور اس کو محض اتفاق قرار دینا ناممکن تھا۔
قتل کیسے کیے جاتے
تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ صرف عمررسیدہ اور خراب حالت کے مریض مارے گئے۔ ماہرین کے مطابق ان کو ایسے کیمیکل کا انجکشن لگایا جاتا جس کے بعد انہیں ہارٹ اٹیک ہو جاتا اور یوں وہی سلسلہ کہ گارڈز آتے اور میت کو لے جانے کا انتظام کرتے۔
گھریلو حالات میں بگاڑ
انہی دنوں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کرسٹن گلبرٹ کے شوہر کے ساتھ تعلقات بگڑ گئے اور ان کے شوہر نے یہ الزام بھی لگایا کہ ان کو روزانہ کھانے میں تھوڑی مقدار میں زہر دیا جا رہا ہے جس کے بعد کرسٹن شوہر سے علیحدہ ہو کر الگ فلیٹ میں شفٹ ہو گئیں۔
ساتھی نرسوں کے بیانات
معاملہ سامنے آنے کے بعد پولیس نے دیگر نرسوں کے انٹریوز کیے جس کے بعد پراسیکیوٹرز کا کہنا تھا کہ قتل کا ایک مقصد اپنے محبوب کو بلانے کے علاوہ یہ بھی تھا کہ وہ بوائے فرینڈ کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں مستعدی سے ادا کرتے ہوئے دکھانا چاہتی تھیں اور میت کی منتقلی کے لیے ہونے والی کارروائی کے دوران وہ بہت خوش رہتیں اور محبوب کے ساتھ گپ شپ بھی کرتی رہتیں۔
خودکشی کی کوشش
کرسٹن کے ڈیوٹی پر نہ آنے کے بعد ہسپتال میں مریضوں کی ہلاکتوں کی شرح معمول پر آ گئی۔ تحقیقات کے دوران پیرالٹ کا ان سے رابطہ رہا مگر جیسے جیسے صورت حال کھلتی گئی انہوں نے بھی کرسٹن کے ساتھ رابطے منقطع کر لیے۔
جس پر کرسٹن نے خودکشی کی کوشش کی اور بڑی مقدار میں خواب آور گولیاں کھا لیں۔ جب انہیں کسی اور ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے فون پر ان کی پیرالٹ سے بات بھی ہوئی۔
پولیس کی پوچھ گچھ کے دوران پیرالٹ نے بتایا کہ ہسپتال سے فون پر کرسٹن نے انہیں بتایا تھا کہ ’میں نے ان سب افراد کو قتل کر دیا تھا۔‘
انہوں نے پیرالٹ کو یہ بھی کہا تھا ویٹرن افیئرز میڈیکل سینٹر میں بم رکھا گیا ہے جو تھوڑی دیر میں پھٹ جائے گا۔ پیرالٹ اس وقت ڈیوٹی پر تھے۔ دھمکی کے بعد ہسپتال سے مریضوں کو نکال لیا گیا تھا تاہم بم برآمد نہیں ہوا۔
کرسٹن کی گرفتاری
پیرالٹ کا بیان سامنے آنے کے بعد کرسٹن کو گرفتار کر لیا گیا۔ بم کی دھمکی دینے کے کیس میں ان کو 15 ماہ کی سزا سنائی گئی جبکہ ہسپتال میں مریضوں کی ہلاکتوں کی تحقیقات جاری رہیں۔
تحقیقاتی اداروں کی تقریباً ایک سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے دوران ان سینکڑوں مریضوں کا ریکارڈ بھی چیک کیا گیا جو کرسٹن کی ڈیوٹی کے دوران ہلاک ہوئے تاہم بہت زیادہ عرصہ گزر جانے کی وجہ سے کوئی براہ راست لنک نہیں مل سکا، مگر چار ایسے مریضوں کی نشان دہی ضرور ہو گئی جن کو انہوں نے زہر کے انجکشن لگائے اور وہ جان سے گئے جبکہ ایسے تین مزید مریضوں کو بچا لیا گیا تھا جنہیں انہوں نے مارنے کی کوشش کی تھی۔
عدالتی کارروائی
کئی تاریخوں اور لمبی عدالتی کارروائی کے بعد 14 مارچ 2001 کو کرسٹن گلبرٹ کو چار اموات اور تین افرا کو قتل کرنے کی کوشش کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا گیا۔
اگرچہ میساچوسیٹس میں موت کی سزا نہیں ہے مگر چونکہ جرائم فیڈرل پراپرٹی پر ہوئے اس لیے ان کو سزائے موت دی جا سکتی تھی اور پراسیکیوٹرز نے اس کے لیے دلائل بھی دیے تھے تاہم استغاثہ کی جانب سے سزا کو کم رکھنے کے لیے کوششیں کی گئیں اور بتایا گیا کہ وہ بم کی دھمکی میں بھی سزا کاٹ چکی ہیں جبکہ کچھ اور نکات بھی پیش کیے گئے جن میں سزائے موت کی صورت میں کرسٹن کے بچوں پر پڑنے والے اثرات کا تذکرہ بھی تھا۔
کیس کا فیصلہ
26 مارچ 2001 کو عدالت نے کرسٹن گلبرٹ کو چار بار عمر قید کی سزا سنائی جبکہ اس میں مزید 20 برس بھی شامل کیے گئے۔ وہ اس وقت ٹیکساس کی جیل میں قید ہیں جہاں سے ان کے جیتے جی نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔