Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا لاہور کا 16 سالہ ’سیریل کلر‘

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کا ٹرائل فی الحال شروع نہیں ہوا لیکن اس بار ٹھوس شواہد کی بنا پر مضبوط چالان تیار کیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پولیس افسروں نے جب جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور کمسن ادن کی تشدد زدہ لاش دیکھی تو وہ چکرا گئے کیونکہ یہ اس علاقے میں گزشتہ دو برسوں کے دوران تیسرے بچے کا قتل تھا جسے جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔
پنجاب پولیس کے اعلٰی حکام جلد سے جلد قاتل تک پہنچنا چاہتے تھے جس کے لیے پولیس نے اس نوعیت کے گذشتہ مقدمات کی جانچ شروع کی جن میں ایک نام فیضان کا بھی سامنے آیا۔
وہ دو برس میں قتل ہونے والے تین میں سے دو بچوں کا قاتل تھا جن میں سے ایک اس کا بھائی بھی تھا۔
پولیس افسروں کو یقین پختہ ہو چکا تھا کہ کم سن مقتول ادن کے قتل میں بھی ہو نہ ہو، فیضان ہی ملوث ہے اور پولیس نے جب اسے گرفتار کیا تو اس نے جلد ہی اعترافِ جرم بھی کر لیا۔
لاہور میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی جرائم اور قتل کی وارداتوں میں اب تک کسی منظم گروہ کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں اور نہ ہی پنجاب پولیس کی جانب سے طریقہ واردات کے پیشِ نظر ایسی کوئی تصدیق کی گئی ہے، لیکن فیضان کی گرفتاری کے بعد پنجاب پولیس کے ریکارڈ میں ایک ایسے ملزم کا اضافہ ضرور ہوا ہے جسے پیڈوفائل ہونے کے علاوہ سیریل کِلر بھی قرار دیا جا رہا ہے جس کے طریقہ واردات، اپنے ہدف کی باقاعدہ ریکی کرنے اور مقصد میں یکسانیت نے اس کے سیریل کِلر ہونے پر مہر ثبت کی ہے۔

سیریل کلنگ کی شروعات 

لاہور کی پسماندہ آبادی نشتر کالونی میں بچوں کے قتل کا سلسلہ دو برس قبل جنوری 2021 میں شروع ہوا جب گھر سے لاپتہ ہونے والے آٹھ سالہ ارسلان کی لاش روہی نالے کے قریب جھاڑیوں سے ملی۔ اسے سر پر کسی بھاری چیز کا وار کر کے قتل کیا گیا تھا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بچے کو قتل کیے جانے سے قبل جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
پولیس نے اغوا کے مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کر کے تفتیش شروع کی تو انکشاف ہوا کہ قاتل کوئی غیر نہیں بلکہ مقتول کا بڑا بھائی فیضان ہے جو دو روز سے اپنے والدین کے ساتھ مل کر اپنے گمشدہ بھائی کو تلاش کر رہا تھا۔
فیضان نے دورانِ تفتیش انکشاف کیا کہ ’وہ گھر کے قریب واقع دکان سے ٹافیاں دلوانے کا کہہ کر اپنے چھوٹے بھائی کو ساتھ لے گیا اور روہی نالے کے قریب اس سے جنسی زیادتی کی جس کے بعد پہلے اس کے سر پر بوتل سے وار کیا اور پھر اینٹ مار کر قتل کر دیا۔‘
پولیس کے مطابق فیضان کی عمر اس وقت محض 14 برس تھی لیکن اس کے چہرے پر پریشانی یا اضطراب کے کوئی آثار موجود نہیں تھے۔

تفتیش کے دوران فیضان نے پانچ ماہ سے لاپتہ اپنے ہمسائے چھ سالہ عبداللہ کے قتل کا اعتراف بھی کر لیا۔ (فائل فوٹو: فری پک)

ایک قتل کی تفتیش کے دوران دوسرے قتل کا اعتراف

مقتول ارسلان کے قتل کی تفتیش کے دوران ہی فیضان نے ایک اور چونکا دینے والا انکشاف کیا جو ایک اور قتل سے متعلق تھا۔
فیضان نے پانچ ماہ سے لاپتہ اپنے ہمسائے چھ سالہ عبداللہ کے قتل کا اعتراف بھی کر لیا جس کے اغوا کا مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا تھا۔
اس نے دورانِ تفتیش بتایا کہ ’اس نے بچے کو قتل کر کے اس کی لاش روہی نالے میں پھینک دی تھی۔‘
پولیس نے فیضان کی نشاندہی پر روہی نالے سے لاش کی برآمدگی کی بہت کوشش کی لیکن کمسن عبداللہ کی لاش نہیں ملی۔
فیضان نے بتایا کہ ’اس نے اس بچے کو بھی جنسی زیادتی کرنے کے بعد سر میں اینٹ مار کر قتل کیا اور جرم چھپانے کے لیے لاش نالے میں پھینک دی تھی۔‘
پولیس نے دونوں واقعات کی تفتیش مکمل کرنے کے بعد چارج شیٹ فائل کی اور ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا۔

گرفتاری کے بعد رہائی اور پھر ایک اور قتل

انچارج انویسٹی گیشن تھانہ نشتر کالونی محمد فاروق نے رابطہ کرنے پر اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’نشتر کالونی تھانے کی حدود میں قتل ہونے والے بچے عبداللہ کے ساتھ ملزم فیضان کے والدین کے قریبی تعلقات تھے جبکہ قاتل کا دوسرا شکار اس کا اپنا بھائی تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’فیضان کے والدین نے مقتول عبداللہ کے ورثا سے معافی مانگ کر راضی نامہ کر لیا جبکہ اپنے بیٹے ارسلان کے قتل کے معاملے میں بھی فیضان کو معاف کر دیا، اور یوں واردات کے کچھ عرصے بعد ہی ملزم کو جیل سے رہائی مل گئی جس میں اہم کردار ملزم کا کم عمر ہونا بھی تھا۔‘
ان وارداتوں کے دو برس بعد نشتر کالونی کے علاقے سے ایک آٹھ سالہ بچے کی تشدد زدہ لاش ویرانے سے ملی، جسے سر پر اینٹوں کے وار کر کے قتل کیا گیا تھا۔ مقتول کی شناخت ادن کے نام سے ہوئی۔
پولیس طریقہ واردات اور دیگر شواہد کی بنا پر ایک بار پھر فیضان تک پہنچ گئی جس کی عمر اب 16 سال ہو چکی تھی اور وہ کچھ عرصے قبل ہی جیل سے رہا ہوا تھا۔ وہ اس سے قبل اپنے بھائی سمیت دو بچوں کو جنسی زیادتی کرنے کے بعد قتل کر چکا تھا اور جیل کی ہوا بھی کھا چکا تھا۔ 

عدالت نے ملزم فیضان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا ہے۔ (فوٹو: فری پک)

پیڈوفائل پروفائلنگ اور قاتل کا سراغ 

انویسٹی گیشن پولیس نے ادن کے قتل کا سراغ لگانے کے لیے سب سے پہلے پیڈو فائلز کے ریکارڈ میں شامل ہسٹری شیٹرز کو شاملِ تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا اور اس فہرست میں اب فیضان کا نام بھی موجود تھا۔
تفتیشی افسر کے مطابق فیضان کی تصویر اور کوائف سامنے آتے ہی سب سے پہلا شک اسی پر گیا کیوںکہ قتل کی پہلی دو وارداتوں اور رواں برس ادن کے قتل کا طریقہ واردات ایک سا تھا۔
بچے کو جنسی زیادتی کے بعد  سر پر اینٹ کے وار کر کے قتل کیا گیا تھا اور جائے وقوعہ رنگ روڈ سے ملحقہ ویران علاقہ تھا، جہاں فیضان نے اپنے چھوٹے بھائی ارسلان کو قتل کیا تھا اور اسی جگہ ہمسائے عبداللہ کی لاش نالے میں پھینکنے کا اعتراف کیا تھا، لہٰذا فیضان کو فوری طور پر حراست میں لے کر تفتیش کا آغاز کیا گیا جس نے ادن کے قتل کا اعتراف بھی کر لیا۔ 

قتل کی وارداتوں میں مماثلتیں

سیریل کلرز عموماً ایک ہی علاقے میں واردات کرتے ہیں کیوںکہ ان کے لیے اس علاقے سے باہر جا کر اپنے شکار کا تعین کرنا آسان نہیں ہوتا۔
ان کے شکار ہونے والے افراد کی عمریں (ایج گروپ) لگ بھگ ایک جتنی ہوتی ہیں۔
سیریل کلرز عمومی طور پر ایک ہی جنس کے افراد کو ٹارگٹ کرتے ہیں، یعنی اگر کوئی سیریل کلر بچوں کے قتل میں ملوث ہو تو بہت زیادہ امکان ہے کہ وہ بچوں کو بھی جنس کا تعین کر کے ہی قتل کرے گا۔ 
سیریل کلر کی ہر واردات کے پس منظر میں ایک مخصوص سوچ یا مقصد کارفرما ہوتا ہے، جس کے تحت وہ واردات کرتا ہے۔
پنجاب میں ہونے والی سیریل کلنگ کی وارداتوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ تمام پہلو کھل کر سامنے آ جاتے ہیں جس کی ایک بڑی مثال قصور میں چند برس قبل ہونے والے بچوں سے جنسی زیادتی کے بعد قتل کے واقعات بھی شامل ہیں۔

فیضان کیوں سیریل کِلر قرار دیا گیا؟ 

پولیس کے ریکارڈ میں سیریل کلنگ کی الگ سے کیٹیگری موجود نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو سیریل کلر قرار دینے کے لیے کوئی دستاویزی کارروائی کی جاتی ہے۔ البتہ تفتیش کار حالات و واقعات، شواہد اور طریقہ واردات میں مماثلت کی بنیاد پر ملزم کو سیریل کِلر قرار دیتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہرہ رباب کہتی ہیں کہ ایسے افراد دو نفسیاتی امراض سائیکو پاتھ یا اینٹی سوشل پرسنلٹی ڈس آرڈر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ (فائل فوٹو: سائی کوم)

نشترکالونی کے فیضان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا جس میں طریقہ واردات اور حالات و واقعات ایک سے ہونے کے باعث پولیس نے اسے سیریل کِلر قرار دیا۔ 

ملزم کا دورانِ تفتیش ایک اہم بیان

ملزم فیضان نے دورانِ تفتیش پولیس کو یہ بیان دیا کہ ’تینوں وارداتوں کے وقت اس کی ذہنی کیفیت معمول کے مطابق نہیں تھی اور بالخصوص بچوں کی جان لیتے ہوئے وہ ہوش و حواس میں نہیں تھا اور بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرتے وقت اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کیوں کررہا ہے۔‘

سیریل کِلر یا نفسیاتی مریض؟ 

ذہنی و نفسیاتی امراض کی تشخیص اور علاج کرنے والی کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر طاہرہ رباب کہتی ہیں کہ ایسے افراد دو نفسیاتی امراض سائیکو پاتھ یا اینٹی سوشل پرسنلٹی ڈس آرڈر کا شکار ہو سکتے ہیں، لیکن یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ایسے مرض کی مکمل تشخیص وقت طلب مرحلہ ہے جس کے لیے بار بار ان سے بات چیت اور معمول کی حرکات کا معائنہ کرنا اور سوچ کا تجزیہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔
’تاہم فیضان کے پولیس کو دیے گئے بیان سے حتمی طور پر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ایسے افراد کسی کو تکلیف دینے میں لذت محسوس کرتے ہیں اس لیے وہ یہ عمل بار بار دہرانا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمومی طور پر ایسے افراد بچپن یا کم عمری میں خود کسی تکلیف دہ عمل کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں جو ان کے لاشعور میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے، جس کے باعث ایک خاص مرحلے میں آ کر دوسروں کو تکلیف دینا ان کا مشغلہ بن جاتا ہے جسے انجام دیتے ہوئے وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے قاصر ہو جاتے ہیں جیسے فیضان کا بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنا جس سے اس کے اس رویے کی عکاسی ہوتی ہے۔‘

فیضان اب کہاں ہے؟ 

پولیس نے 18 اپریل کو فیضان کی باضابطہ طور پر گرفتاری کا اندراج کیا جس کے بعد شواہد، اعترافی بیان اور سابقہ ریکارڈ کے ہمراہ اس کا چالان عدالت میں پیش کر دیا گیا۔

دونوں بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تھا اور جائے وقوعہ رنگ روڈ سے ملحقہ ویران علاقہ تھا۔ (فوٹو: زمین ڈاٹ کوم)

عدالت نے ملزم فیضان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کا ٹرائل فی الحال شروع نہیں ہوا لیکن اس بار ٹھوس شواہد کی بنا پر مضبوط چالان تیار کیا گیا ہے تاکہ اسے یقینی طور پر سزا دلوائی جا سکے۔
مقدمہ کی تفتیش کرنے والے افسروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملزم کو سزا دلوانے کے لیے تفتیش کا عمل ناقص نہ ہو تو ملزم اپنے جرم کی سزا ضرور پاتا ہے۔

شیئر: