Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا موسم سرما میں کورونا وائرس کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت ہے؟

سائنسدانوں کے خیال میں کورونا کی نئی اقسام زیادہ خطرناک نہیں ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
سائنسدانوں اور ویکسین بنانے والی کمپنیوں کے نئے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ کووڈ 19 کی وجہ بننے والا نیا وائرس اس قدر خطرناک نہیں ہے جس قدر خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بی اے 2.86 اومی کرون کے ویریئنٹ ’پیرولا‘ نامی وائرس کو عالمی صحت کی تنظیم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور بیماریوں پر قابو پانے والے امریکی سنٹر سی ڈی سی نے بھی اس وائرس کی شناخت کی ہے۔
حالیہ کچھ عرصے میں امریکہ، یورپ اور ایشیائی ممالک میں کورونا سے متاثر اور ہسپتال میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن ماضی کے مقابلے میں یہ تعداد بہت کم ہے۔
ایک ہفتہ قبل 30 اگست کو امریکی ادارے سی ڈی سی نے کہا تھا کہ بی اے 2.86 اومی کرون کی ایک قسم سامنے آئی ہے جس نے کم از کم چار امریکی ریاستوں میں رہنے والوں کو متاثر کیا ہے۔
امریکی ریاست ڈیلاویئر نے منگل کو کہا تھا کہ ایک ہسپتال میں بی اے 2.86 وائرس کا پتہ چلا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی عالمی تنظیم برائے صحت کا کہنا ہے کہ کم از کم 6 ممالک میں وائرس کی اس قسم کی تشخیص ہوئی ہے۔
سی ڈی سی کے ڈیٹا کے مطابق کورونا کے موجودہ کیسز میں سے 20 فیصد ’ای جی فائیو‘ جبکہ 14.5 فیصد ’فورنیکس‘ سے متاثر ہیں جو اومی کرون کی ہی اقسام ہیں۔
ای جی فائیو کی یہ قسم نومبر 2021 میں سامنے آئی تھی جسے عام طور پر ایرس کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ فورنیکس نے امریکہ کی مشرقی ریاستوں کو متاثر کیا ہے۔
امریکی یونیورسٹی جان ہاپکنز کے سائنسدان ڈاکٹر ڈیوڈ ڈاؤڈی کا کہنا ہے کہ آئندہ ماہ میں کورونا کی قسم ’ایف ایل 1.5.1‘ کے زیادہ سے زیادہ کیسز سامنے آئیں گے تاہم ان کے خیال میں موسم سرما میں کورونا کی پچھلی لہر واپس آنے کی توقع نہیں ہے۔

امریکہ، یورپ اور ایشیائی مماملک میں کورونا کے نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اومی کرون کی قسم بی اے 2.86 کی مزید 35 اقسام موجود ہیں جس نے سائنسدانوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔
سائنسدانوں کو خدشہ تھا کہ پچھلی اقسام کے مقابلے میں کہیں یہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت تو نہیں رکھتا، تاہم مختلف لیبارٹریوں میں ہونے والے تجربات نے اس خطرے کو مسترد کیا ہے۔
یہاں ایک اور سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ویکسین نئے ویریئنٹس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 
باسٹن سنٹر برائے ویکسین ریسرچ کی جانب سے کیے گئے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ نئی ویکسین تمام موجودہ ویرینئٹس کے خلاف کچھ حد تک مؤثر ہے۔
موڈرنا کمپنی نے بدھ کو کہا تھا کہ اس کی ویکسین سے اینٹی باڈیز میں 9 گنا اضافہ ہوا جو بی اے 2.86 ویریئنٹ کا مقابلہ کرنے میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں جبکہ فائزر کمپنی نے بھی کہا ہے کہ اس کی ویکسین کے اپڈیٹڈ شاٹس وائرس کی نئی قسم کے خلاف مؤثر ہیں۔

شیئر: