Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کا ’وی لاگر گینگ‘ جس نے ڈکیتی کی ویڈیوز فیس بک پر اَپ لوڈ کیں

ملزمان کی جانب سے ڈکیتی کی وارداتوں کی ویڈیوز فیس بک پر اَپ لوڈ کی گئیں۔ (فوٹو: فری پک)
یہ کراچی کے ایک گنجان آباد علاقے کا منظر ہے جس کی ایک قدرے سنسان سڑک کے وسط میں مسلح نوجوانوں کی ٹولی کچھ یوں کھڑی تھی گویا کسی فلم کی شوٹنگ جاری ہو جب کہ قریب ہی ایک نوجوان اس پورے منظر کو فلم بند کر رہا تھا۔
راہگیر بھی اس پوری سرگرمی کو ایک فلم کا منظر ہی خیال کر رہے تھے کہ اسی اثنا میں ان نوجوانوں نے مبینہ ڈکیتی کی ایک واردات انجام دی اور قریب ہی کھڑی اپنی موٹرسائیکلوں پر فرار ہو گئے۔
فلم مکمل ہو چکی تھی جسے ان نوجوانوں میں سے ایک نے شہرت حاصل کرنے کے لیے فیس بک پر ریلیز کرنے میں زیادہ تاخیر نہیں کی جس کے بعد اس نوعیت کی وارداتوں کی مزید ویڈیوز بھی ریلیز کی گئیں اور تب پولیس حکام بھی ان  ڈکیتوں کے اس غیرمعمولی اعتماد پر چکرا کر رہ گئے۔
کراچی پولیس نے ان مبینہ ڈکیتوں کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن شروع کیا اور ملزموں تک پہنچنے کے لیے ہر طریقہ استعمال کیا جب کہ مخبروں نیٹ ورک بھی فعال کیا گیا جس کے بعد ملزم زیادہ دیر تک پولیس کے ساتھ آنکھ مچولی کا کھیل نہ کھیل سکے اور جلدی ہی گرفتار کر لیے گئے۔
یہ وارداتیں اس وقت منظر عام پر آئیں جب کچھ روز قبل شیر شاہ کے علاقے میں ایک کے بعد ایک ڈکیتی کی شکایات نے پولیس افسروں کی رات کی نیندیں اُڑا دی تھیں۔ 
لوٹ مار کا شکار ہونے والے شہری پولیس میں ایف آئی آر درج کرواتے جس کے بعد تفتیش شروع ہو جاتی اور شہری بھی صبر کر کے اس انتظار میں رہتے کہ ان کی تکلیف کا باعث بننے والے مبینہ ڈکیت گینگ کے تمام ارکان جلد گرفتار ہو کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔
پھر ایک واقعہ نے پولیس کی مشکلات مزید بڑھا دیں۔ ہوا کچھ یوں کہ ڈکیتی کا شکار ہونے والے متاثرین پولیس کے پاس آئے اور یہ انکشاف کیا کہ ان کے ساتھ لوٹ مار کرنے والوں نے سوشل میڈیا پر ان وارداتوں کی ویڈیوز اَپ لوڈ کی ہیں۔
یہ واردات کرنے کا ایک انوکھا اور اپنی نوعیت کا مختلف معاملہ تھا جس کے باعث پولیس افسر بھی چکرا گئے۔
شکایت کنندگان کی شکایت درست تھی کیوں کہ یہ ڈکیت گینگ واردات کے منظر خود ہی ریکارڈ کرکے فیس بک پیج پر اَپ لوڈ کر رہا تھا اور ان کی بنائی ہوئی ویڈیوز وائرل بھی ہوئی تھیں۔

ڈکیتی کی وارداتوں کے بعد سوشل میڈیا پر ویڈیوز نے پولیس حکام کی پریشانی میں اضافہ کیا۔ فائل فوٹو: کراچی پولیس

ملزموں کی گرفتاری کے لیے کیا گیا؟

سب انسپکٹر عتیق آفریدی کے مطابق ملزمان علاقے کے کم رونق والے علاقوں کی شاہراؤں پر ناکہ لگا کر کھڑے ہو جاتے تھے اور شاہراہ سے گزرنے والے لوگوں کو کسی بہانے سے روکتے اور ان سے ڈکیتی کرتے۔
پولیس نے اُردو نیوز کو تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ ’شیر شاہ قبرستان کے قریب پولیس کو واردات کی اطلاع ملی، لوٹ مار کا شکار ہونے والے شہریوں نے بتایا کہ قبرستان جانے والے راستے پر کچھ لوگ ہتھیاروں کے ساتھ ناکہ لگائے کھڑے تھے، جنہوں نے وہاں سے گزرنے والے شہریوں کو روکا اور ان سے موبائل فون کے علاوہ پیسے بھی چھین لیے۔ شہری نواز نے پولیس کو بتایا کہ لوٹ مار کرنے والے مبینہ ڈکیتوں میں سے ایک موبائل فون سے اس واردات کی ویڈیو بھی بنا رہا تھا۔‘
سوشل میڈیا پر ڈکیتی کی ان وارداتوں کی ویڈیوز بھی اَپ لوڈ کی گئیں، جو پولیس کے لیے ملزموں تک پہنچنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔
پولیس نے شہریوں کی شکایت پر سائٹ ایریا، شیر شاہ، غنی چورنگی سمیت مختلف علاقوں میں ہونے والی وارداتوں کی تفصیلات جمع کرنا شروع کیں۔
پولیس نے لوٹ مار کا شکار ہونے والے افراد سے رابطہ کیا اور ان سے ڈکیتی کی وارداتوں سے متعلق تمام معلومات ازسرِ نو حاصل کیں۔
حکام نے بتایا کہ ’پولیس اپنے طور پر تو ملزموں کی گرفتاری کے لیے سرگرم تھی مگر مخبری کے نظام کو بھی فعال کیا گیا جس کے باعث کچھ لوگوں کی نشان دہی ہو گئی۔‘
پولیس حکام کے مطابق ان مبینہ ڈکیتوں تک پہنچنے کے لیے فیس بک کے صفحات اور سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ ہونے والی ویڈیوز سے مدد لی گئی اور ملزموں کی مکمل معلومات حاصل کی گئیں جب کہ ان کی ویڈیوز بھی جمع کی گئیں۔

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتار ملزموں کو 10 متاثرین نے شناخت کر لیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پولیس نے ملزمان کی کارروائی کرنے کے وقت، علاقوں اور ان کے زیرِاستعمال رہنے والے آمد و رفت کے ذرائع کی مکمل تفصیلات بھی جمع کیں۔
پولیس اب مبینہ ڈکیتوں سے زیادہ دور نہیں تھی۔ چھاپے سے قبل انٹیلی جنس کے نظام کو استعمال کرتے ہوئے تمام تر تیاریاں مکمل کی گئیں اور کامیاب کارروائی کرتے ہوئے ابتدائی طور پر چار افراد کو حراست میں لیا گیا جن کی نشاندہی پر مزید دو افراد کو حراست میں لیا گیا اور یوں مجموعی طور پر 6 افراد گرفتار کیے گئے جن کے قبضے سے 3 ٹی ٹی پستول، 12 موبائل فونز اور تین موٹرسائیکلیں برآمد کی گئیں۔

ڈکیتی کی ویڈیوز بنانے کا کیا مقصد تھا؟

پولیس کا کہنا تھا کہ ’گرفتار ملزموں نے دورانِ تفتیش یہ انکشاف کیا کہ وہ واردتوں کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کر کے مشہور ہونا چاہتے تھے جب کہ پولیس کی حراست میں موجود ایک اور ملزم کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیوز مذاق میں اَپ لوڈ کی گئی تھیں، اس وقت یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ ان ویڈیوز کی وجہ سے گرفتار ہو جائیں گے۔‘
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ’گرفتار ملزموں کو ڈکیتی کی وارداتوں کا شکار ہونے والوں میں سے 10 متاثرین نے شناخت کر لیا ہے جن کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے مزید تفتیش کی جا رہی ہے۔

شیئر: