Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ٹیکس ضروری لیکن غریب کو بچائیں،‘ آئی ایم ایف پاکستان سے اب کیا چاہتا ہے؟

پاکستان کو سٹینڈ بائی معاہدے کے تحت نومبر میں اقتصادی جائزے کے بعد اگلی قسط ملے گی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جورجیوا سے ملاقات ہوئی ہے۔
بدھ کو اس ملاقات کی تصویر اپنے ایکس (ٹوئٹر) اکاؤنٹ سے شیئر کرتے ہوئے کرسٹالینا جورجیوا نے لکھا کہ ’پاکستان کے وزیراعظم کے ساتھ آج پاکستان معاشی امور سے متعلق بہت اچھی میٹنگ ہوئی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ (معاشی) استحکام کو یقینی بنانے، پائیدار اور جامع ترقی، ترجیحی بنیادوں پر محصولات جمع کرنے اور پاکستان میں غربت کے شکار افراد کے تحفظ کے لیے مضبوط پالیسیوں کی ضرورت ہے۔‘
دوسری جانب نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی اپنے بیان میں اس ملاقات کو تعمیری قرار دیا ہے۔
نگراں وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ ملاقات کی مختصر ویڈیو ایکس پر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس کے موقع پر آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر سے تعمیری مکالمہ ہوا جس میں پاکستان میں پیدوار اور معاشی استحکام کے لیے ہماری مشترکہ کمٹمنٹس کو وسعت دینے پر زور دیا گیا۔‘
سٹینڈ بائے معاہدے کے بعد کیا ہوا؟
رواں برس جون میں آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان تین ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی معائدہ (ایس بی اے) طے پا گیا تھا جس میں پاکستان نے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ پاور سیکٹر میں لاگت کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے ٹیرف میں ’بروقت‘ اضافہ کرے۔
ابتدائی طور پر آئی ایم نے پاکستان کے سٹیٹ بینک میں ایک ارب 20 کروڑ ڈالر جمع کرا دیے تھے جبکہ باقی رقم آئی ایم ایف کے دو مزید جائزوں کے بعد پاکستان کو ملے گی۔
اس نئے سٹینڈ بائی معاہدے میں پاکستان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ کرنسی کے ایکسچینج ریٹ پر حکومتی کنٹرول کو ختم کر کے اسے مارکیٹ کے مطابق کرے۔
اس کے علاوہ سرکاری اداروں میں نقصانات کو کم کرنے کے لیے مضبوط گورننس پر بھی زور دیا گیا تھا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدے کے بعد پاکستان میں بجلی اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑا اضافہ دیکھا گیا اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی تسلسل کے ساتھ بڑھتی رہیں۔
اس کے بعد جب نگراں حکومت بنانے کا موقع آیا تو اس وقت کی اتحادی حکومت نے کچھ ترامیم کے ساتھ نئی حکومت کو یہ اختیار دیا کہ وہ وہ جاری معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے ضروری اقدامات کر سکتی ہے۔
نومبر کا اقتصادی جائزہ کیا نتائج لائے گا؟
دوسری جانب منگل کو پاکستانی اخبار ’ایکسپریس ٹریبیون‘ نے ایک خبر میں کہا تھا کہ ’پاکستان کے بیرونی فنانسنگ پلان میں سے تقریباً 4.5 ارب ڈالر نہ ملنے کا خدشہ ہے جبکہ قرضوں کے اخراجات کا تخمینہ کم لگانے کی وجہ سے بجٹ میں مزید ایک کھرب روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ یہ صورتحال آئی ایم ایف پروگرام کے پہلے جائزے کے دوران سنگین مسئلہ بن سکتی ہے۔
منگل ہی کو پاکستان کی وزارت خزانہ نے اس خبر کے مندرجات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تھا کہ ’اس میں پاکستان کے مالی سال 2023۔24 کی بیرونی ادائیگیوں سے متعلق ضروریات کی درست تصویر نہیں پیش کی گئی۔‘
وزارت خزانہ اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’جون میں سٹینڈ بائے معاہدے تک پہنچنے کے لیے حکومت نے بجٹ 2023۔24 کے تمام اعدادو شمار آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کیے تھے۔حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر مالی اور زرمبادلہ کے ذخائر سے متعلق اہداف کو مکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
اس کے اگلے دن بدھ کو پاکستان کی نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے جمعرات کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’نگراں حکومت معیشت کو بہتر بنانے کے لیے آخری حد تک اقدامات اٹھائے گی۔‘
اس تمام پس منظر کے بعد آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کی جانب سے ٹیکس اکٹھا کرنے اور غریبوں کو تحفظ دینے کے بیان سے متعلق یہ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟
’بڑا مسئلہ ٹیکس جمع کرنے کا ہے‘
معاشی تجزیہ کار حارث ضمیر نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔ جب ٹیکس درست طور پر جمع نہیں ہوتا تو مالیاتی خسارہ بڑھ جاتا ہے جسے پورا کرنے کے لیے ہم قرض مانگتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف یہی کہہ رہا ہے کہ ٹیکس کے دائرے کو وسعت دی جائے۔ ہماری معیشت کے حجم کے لحاظ سے ٹیکس کلیکشن بہت کم ہے۔ سیاسی حکومتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مصلحتوں کے پیش نظر کچھ چیزوں کو ٹیکس کے دائرے میں نہیں لاتیں۔‘

پاکستان کی حکومت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بہتر کرنے کی کوششیں کر رہی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

آئی ایم ایف کی جانب سے غریبوں کو بچانے کے بیان پر حارث ضمیر کا کہنا تھا کہ ’آپ دیکھ لیں کہ جو سیلاب زدگان ہیں، انہیں ابھی تک پیسے نہیں ملے۔ اسی قسم کے کمزور طبقات کی طرف آئی ایم ایف کا اشارہ ہے۔‘
‘معاشی ڈھانچے میں تبدیلی ناگریز‘
’ہم برآمدات بڑھا نہیں رہے ۔ ہمارا انحصار ترسیلات زر پر ہے جن میں اتار چڑھاؤ کی کیفیت رہتی ہے۔ اس لیے معاشی ڈھانچے میں کچھ بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔‘
حارث ضمیر نے کہا کہ ’حکومت کچھ شعبوں جیسا کہ ٹیکسٹائل وغیرہ کو بجلی کی مد میں سبسڈی دیتی ہے لیکن آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس طرح کی سبسڈی سے فائدہ کیا ہوتا ہے۔ آج نگراں وزیر خزانہ نے ایس او اے سے متعلق پریس کانفرنس میں 500 ارب کے خسارے کی بات کی۔ یہ اعداد و شمار تو 2020 کے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ آج 2023 میں یہ خسارہ 900 ارب تک پہنچ چکا ہے؟‘
’آئی ایم ایف کی کچھ شرائط پوری ہوئی ہیں‘
آئی ایم ایف کے نومبر میں متوقع جائزے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ معاملات پر حکومت نے کام کیا ہے جیسے ڈالر ریٹ کو مارکیٹ کے مطابق رکھنا، شرح سود اور توانائی کے شعبے میں ٹیرف۔ یعنی آئی ایم ایف کی سات میں سے لگ بھگ چار شرائط پوری ہیں، اسے لیے نومبر میں ہونے والے اقتصادی جائزے کے نتائج مثبت آ سکتے ہیں۔‘
ماہر معاشی امور ڈاکٹر اشفاق حسن آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر اور نگراں وزیراعظم کے درمیان ہوئی بات چیت کو ’معمول کے بیانات‘ قرار دیتے ہیں۔

حالیہ چند ماہ میں پاکستان میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’آئی ایم ایف کی ڈکشنری میں اصلاحات نام کی چیز نہیں ہوتی‘
ڈاکٹر اشفاق حسن نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کا کہ ’آئی ایم ایف کی عہدے دار نے ٹیکس بڑھانے اور غریبوں کو بچانے کی بات کی ہے۔ اگر وزیراعظم کی جگہ میں ہوتا تو انہیں جواب دیتا کہ آپ برائے مہربانی شرح سود بڑھانے کے لیے ہم پر دباؤ نہ ڈالیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کی ڈکشنری میں اصلاحات نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ان کے نزدیک اصلاحات چیزوں کی قیمتیں بڑھانے کا نام ہے۔ اسی طرح ٹیکس اصلاحات کا مطلب بھی اس کی شرح میں اضافہ کرنا ہے۔ پچھلی حکومت نے جو معاہدہ کیا ہے، اب آئی ایم ایف اپنی شرائط منوائے گا۔ اسے اس طرح کے بیانات اب بے کار کی مشق لگتے ہیں۔‘
’امیروں سے ٹیکس لینے پر زور دیا جا رہا ہے‘
معاشی تجزیہ کار خالد مصطفیٰ نے اردو نیوز کے سوال کے جواب میں کہا کہ ’آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کے اس بیان کا مطلب یہی ہے کہ جو ٹیکس دے سکتے ہیں، ان سے ٹیکس لیا جائے اور جو نہیں دے سکتے، انہیں ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ امیر افراد سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس لیں تاکہ غریبوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف مل سکے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ اس خطے میں اپنی معیشت کے لحاظ سے پاکستان کی ٹیکس کلیکشن کی شرح سب سے کم ہے۔ ہمیں ٹیکس تو جی ڈی پی کی شرح کو بڑھانا ہے۔ یہ شرح ابھی نو فیصد سے کم ہے۔ ہمیں اسے بڑھا کر 13 سے 14 تک لے جانا ہے۔‘
’ہمارے ہاں جو بڑے بڑے زمیندار ہیں جن کی زرعی پیدوار زیادہ ہوتی ہے۔ ان سمیت ریئل اسٹیٹ پر صحیح ٹیکس لگانا چاہیے اور اس کے علاوہ ہول سیلرز اور ریٹیلز بالکل ٹیکس نہیں دیتے۔ ان پر ٹیکس لگانا ہو گا۔‘
’اس آمدنی سے حکومت غریب افراد کے لیے کوئی ریلیف کی سکیم متعارف کروا سکتی ہے۔ اس اعتبار سے آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔‘
’نومبر کے جائزے میں حکومت کو ٹف ٹائم کا خدشہ‘
خالد مصطفیٰ نے بتایا کہ ’آئی ایم ایف کا زرعی سیکٹر، ہول سیلرز اور ریٹیلرز پر ٹیکس عائد کرنے کا کافی عرصے سے مطالبہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ نومبر کےجائزے میں آئی ایم ایف کا وفد اس پر اصرار کرے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف نے انہیں گیس کی قیمتیں بڑھانے کا کہا ہے، شاید اس پر ایک دو ہفتے میں عمل درآمد ہو جائے۔ اس سے آئی ایم ایف خوش ہو جائے گا۔ لیکن یہ خدشہ بھی ہے کہ زرعی شعبے پر ٹیکس نہ لگانے پر شاید آئی ایم ایف حکومت کو ٹف ٹائم دے۔‘
’جائزے میں ڈالر ریٹ کنٹرول کرنے کے حکومتی اقدامات زیر بحث آ سکتے ہیں‘
تھنک ٹینک 'اٹلانٹک کونسل' میں پاکستان انیشیٹو کے ڈائریکٹر اور ماہر معیشت عزیر یونس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف نے اس بیان میں کوئی نئی بات نہیں کی۔ ان کے بیان کا لب لباب یہ ہے کہ آپ اَن ٹارگیٹڈ سبسڈی نہ دیں جیسا کہ آپ پاور سیکٹر میں دیتے ہیں۔‘
’اگر آپ نے غریب طبقے کو بچانا ہے تو اپنے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ان کو رقم دیں۔ اَن ٹارگیٹڈ سبسڈی ختم کریں۔‘
نومبر کے جائزے سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ ابھی ایک دو چیزیں جو باقی توانائی کے شعبے میں بالخصوص گیس کی قیمتوں کے بارے میں۔ اس کے علاوہ روپے کی قدر مستحکم ہونے کے پیچھے جو محرکات ہیں۔ ان پر بھی بات ہو گی۔‘
’مجھے لگتا ہے کہ جائزے میں یہ بات بھی زیربحث آئے کہ مارکیٹ میں کس طرح کی مداخلت ہوئی ہے جس سے روپیہ مستحکم ہوا ہے اور اس کا ڈالر کے اِن فلو پر کیا اثر پڑا ہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘

شیئر: