ایف آئی آر میں ملک ریاض حسین، حنا ملک، حامد ریاض اور عامر رشید اعوان نامزد کیے گئے ہیں، جبکہ مقدمے میں 419، 420 سمیت چھ دفعات شامل کی گئی ہیں۔
خیال رہے کہ بحریہ ٹاؤن پشاور پر اس وقت تمام سرمایہ کاروں کی نظریں مرکوز ہیں مگر اس کے افتتاح کے ساتھ ہی یہ منصوبہ تنازعات کی زد میں آگیا ہے۔
ایک جانب اس کے لیے منتخب زمین پر دو فریقین میں شدید لڑائی چل رہی ہے تو دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کو این او سی جاری نہیں کیا جا رہا۔
پشاور بحریہ ٹاؤن کے لیے متھرا کے علاقے میں واقع کافور ڈھیری کا انتخاب کیا گیا جس پر سابق ڈپٹی سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی محمود جان کے خاندان اور قوم عیسیٰ خیل کے درمیان کئی برسوں سے تنازع چل رہا ہے۔
اس لڑائی کی اصل وجہ قوم عیسیٰ خیل کی کافور ڈھیری پر دعوے داری ہے، فریقین کئی برسوں سے ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں اور موقعہ ملتے ہی ایک دوسرے کو نشانہ بناتے ہیں۔
بحریہ ٹاؤن پشاور کی راہ میں ایک رکاوٹ این او سی کا نہ ہونا ہے۔ ضلعی انتظامیہ پشاور نے اس حوالے سے متھرا تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے ڈپٹی کمشنر کو بحریہ ٹاؤن کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔
چند روز قبل ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر سلیم ایوبی نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ ’بحریہ ٹاؤن سوسائٹی کے پاس این او سی موجود ہے اور نہ ہی زمین خریدی گئی ہے، اس لیے اس کے دفاتر کو سیل کردیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تمام قانونی قواعد و ضوابط پورے کرنے کے بعد دفاتر کھولنے یا کام کرنے کی اجازت ملے گی۔‘
واضح رہے کہ منصوبے کے لیے بحریہ ٹاؤن کے فارم بھی جاری کر دیے گئے ہیں جن کی مقررہ قیمت 70 ہزار روپے ہے، مگر ابھی سے مارکیٹ میں زیادہ طلب کے باعث یہ بلیک میں ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک فروخت ہو رہے ہیں۔