ہمارے ڈراموں میں پہلے جیسی بات نہیں رہی، ان میں صرف شادیاں، طلاقیں، عورت کا منفی کردار یا روایتی خاندانی چپقلش دکھائی دیتی ہے اور ہر 10 میں سے دو افراد آپ کو یہی شکایت کرتے دکھائی دیں گے۔
کسی بھی پاکستانی ڈرامے کی نئی قسط جیسے ہی یوٹیوب پر اپ لوڈ ہوتی ہے اس پر فوراً عوامی ردعمل آنا شروع ہو جاتا ہے یہ کچھ حد تک درست بھی ہے کہ بیشتر ڈراموں میں طلاق اور شادیاں ہی اہم موضوع ہوتے ہیں لیکن اگر ڈرامہ ساز یہ نہ دکھائیں تو پھر کیا دکھائیں؟
یہ بات بھی حقیقت سے دور نہیں جب بھی کسی چینل پر کوئی منفرد اور حساس نوعیت کی کہانی پیش کی جاتی ہے تو اس کے خلاف بھی محاذ کھلتے بھی دیر نہیں لگتی۔
مزید پڑھیں
-
’جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو‘، نیٹ فلکس کی پہلی پاکستانی ڈرامہ سیریزNode ID: 789966
-
سحر خان کی ’غلطی‘ اور بشریٰ انصاری کا اداکاراؤں کو شادی کا مشورہNode ID: 796156
ڈراموں میں دکھائی جانے والی طلاق کی بات کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ طلاق کو معاشرے میں آج بھی بُرا سمجھا جاتا ہے لیکن طلاق سے متعلق اداکارہ اشنا شاہ کا نظریہ بالکل مختلف ہے۔
ایک ٹویٹ میں اداکارہ اشنا شاہ نے لکھا کہ ’میں ایسی کہانی کا حصہ بننا چاہتی ہوں جس میں یہ بتایا جائے کہ طلاق لینا غلط نہیں ہے، طلاق یافتہ ہونے کے بعد بھی خوشیاں حاصل کی جا سکتی ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وہ ڈرامے میں ایسی خاتون کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں جو طلاق کے بعد خودمختار اور خوشحال ہو۔
اداکارہ خود بھی یہ بات مانتی ہیں کہ پروڈیوسرز کو اس طرح کے سکرپٹس کی حمایت کرنے پر راضی کرنا مشکل ہے کیونکہ اس سے معاشرے کے کچھ لوگوں کی جانب سے سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
جہاں انہوں نے اپنے گھر کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ ان کے والدین کی بھی علیحدگی ہو چکی ہے وہیں اداکارہ منشا پاشا نے بھی اپنی ذاتی زندگی سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔
منشا اپنی نجی زندگی کے حوالے سے میڈیا پر کم ہی بات کرتی ہیں لیکن ایک پوڈ کاسٹ میں انہوں نے اپنی طلاق کے حوالے سے کھل کر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شادی کے رشتے کے دوران آپ اس حد تک ایک دوسرے سے جُڑ جاتے ہیں کہ جب یہ رشتہ ختم ہوتا ہے تو بہت تکلیف دہ ہوتا ہے کہ آپ انفرادی طور پر اپنے بارے میں سوچ نہیں پاتے۔‘
انہوں نے کہا کہ انہیں اپنی نجی زندگی کے بارے میں بات کرنا پسند نہیں ہے لیکن اس بارے میں سب کو پتا ہے کہ ان کی پہلی شادی طلاق پر ختم ہوئی اور اس کی تکلیف سے نکلنے میں تقریباً 5 سال کا عرصہ لگا۔
اب اگر منشا پاشا کے بیان کو دیکھیں یہ بھی کہا جا سکتا ہے طلاق پر مبنی ڈرامے کسی طلاق یافتہ کے جذبات مجروح کر سکتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے گھریلو تشدد یا زیادتی (ریپ) پر مبنی کہانی کسی زیادتی سے متاثرہ فرد کو تکلیف دے سکتی ہے۔
اب حال ہی میں پیمرا کی جانب سے پابندی کا سامنا کرنے والے ڈرامہ ’حادثہ‘ کو ہی لے لیجیے جس کی کہانی موٹروے ریپ واقعے سے مماثلت رکھتی ہے۔ اسے عدالت نے دوبارہ نشر کرنے کی مشروط اجازت دے دی لیکن نہ تو ایسا پہلی بار ہوا اور نہ پیمرا اپنی مرضی سے کسی ڈرامے پر پابندی لگاتا ہے یہ پابندی بھی عوامی شکایات کو مدِنظر رکھتے ہوئی لگائی جاتی ہیں جیسا کہ ماضی میں بھی ڈرامہ جلن ، دل ناامید تو نہیں، پیار کے صدقے اور میرے پاس تم ہو جیسے ڈراموں پر پیمرا کی جانب سے پابندیاں لگائی گئیں۔ اسی طرح اس ڈرامے کے خلاف بھی نہ صرف سوشل میڈیا صارفین بلکہ ایک متاثرہ خاتون نے ایک صحافی کی مدد سے اپنی آواز بلند کی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے ڈرامہ شائقین دیکھنا کیا چاہتے ہیں، کیونکہ جب جب کچھ الگ یا تھوڑا حساس موضوع چھیڑا گیا تو ہمارے عوام سے یا تو برادشت نہ ہوا یا تو پھر ڈرامہ ہی نہ چلا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرامہ ساز روایت سے ہٹ کر کچھ نیا بنانے سے ڈرتے ہیں۔
ڈرامے محنت سے بنتے ہیں، لوگ ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں
پاکستان کی معروف رائٹر فاطمہ ثریا بجیا کے لکھے گئے مشہور زمانہ ڈرامہ ’عروسہ‘ سے مقبولیت حاصل کرنے والی اداکارہ مشی خان بھی پاکستانی ڈراموں میں قابلِ احترام رشتوں کی منفی انداز میں تصویر کشی کرنے پر ناخوش دکھائی دیتی ہیں۔
آج کل پاکستانی ڈراموں میں دکھائے جانے والے مواد پر گفتگو کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’قابل احترام رشتوں کو گندا اور غلیظ بنا دیا گیا ہے اور جب ایسے ڈرامے بنانے والوں سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس طرح کے ڈرامے کیوں بنا رہے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس لیے ہم دکھا رہے ہیں کیونکہ لوگ ایسی ہی چیزیں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘
ایسا لگتا ہے کہ شاید ڈرامہ بنانے والے منٹو کے اس قول کی پیروی کررہے ہیں کہ ’جو چیز جیسی ہے اسے ویسا ہی کیوں نہ پیش کیا جائے، ٹاٹ کو ریشم کیوں کہا جائے۔‘
مشی خان نے کہا کہ ’اگر اس بات میں سچائی ہے کہ لوگ ایسی ہی چیزیں دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر تاریخ پر مبنی ڈرامہ ’ارطغرل غازی‘ کو تو پاکستان میں فلاپ ہو جانا چاہیے تھا۔‘
دوسری جانب سینیئر اداکار بہروز سبزواری ڈراموں کے ناقدین کو کھری کھری سنا دی۔
ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پہلے تو بہروز سبزواری نے اس بات کا اعتراف کیا کہ آج کل ریٹنگ پر ڈرامے چلتے ہیں اور بنتے بھی ہیں۔ پی ٹی وی کے دور میں بنائے گئے ڈراموں میں جس تہذیب کا خیال رکھا جاتا تھا آج اس کا فقدان ہے تاہم اداکار نے ڈراموں پر تنقید کرنے والوں کو آڑے ہاتھوں بھی لیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ڈرامے اتنے آسانی سے نہیں بنتے کہ کوئی بھی تنقید شروع کردے۔ انہوں نے ساتھی اداکارہ روبینہ اشرف اور نادیہ خان کا نام لے کر کہا کہ آپ یہ بتانے والی کون ہوتی ہیں کہ ڈرامے میں کیا ہونا چاہیے؟ انہیں معلوم ہے کہ ڈرامے میں کتنی محنت سے کام ہوتا ہے۔‘
پاکستانی شوبز کی چند خوشخبریاں