جمال ناصر کے مطابق اس وقت اواسٹن نامی انجیکشن سے صوبہ بھر میں 68 افراد متاثر ہوچکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں مریضوں کی آنکھوں میں لگائے جانے والے اواسٹن نامی انجیکشن سے کئی افراد کی بینائی ضائع ہونے کے معاملے پر بڑے پیمانے پر انکوائری شروع کر دی گئی ہے۔
محکمہ صحت کے مطابق اس وقت پہلی ترجیح لوگوں کو بچانے کی ہے، جبکہ صوبے کے 6 اضلاع میں 11 ڈرگ انسپکٹرز کو معطل کر دیا گیا ہے۔
صوبے کے نگراں وزیراعلٰی پنجاب محسن نقوی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ لیب رپورٹ آنے تک غیر معیاری انجکشن کی پنجاب میں سیل روک دی گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ لیبارٹری کی رپورٹ آنے کے بعد انجکشن کے استعمال کی اجازت کا فیصلہ کیا جائے گا۔
محسن نقوی نے کہا کہ غیر معیاری انجکشن کی فروخت پر متعلقہ ڈرگ انسپکٹروں اور حکام کے خلاف کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ انہوں نے عوام کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ آشوب چشم پورے پاکستان میں پھیل چکی ہے، ہاتھ دھونے اور دیگر احتیاطی تدابیرسے بچاؤ ممکن ہے۔
پنجاب کے صوبائی وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ ڈاکٹر جمال ناصر کے مطابق اس وقت اواسٹن نامی انجیکشن سے صوبہ بھر میں 68 مریضوں کی تعداد سامنے آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انجکشن کو استعمال کرنے والے ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی کی جائے گی، تاہم ابھی لیب کی رپورٹ آنے میں دو ہفتے لگیں گے۔
اواسٹن انجکشن کیس میں محکمہ پرائمری ہیلتھ کیئر نے جن 11 ڈرگ انسپکٹرز کو معطل کیا ہے ان میں لاہور سے تین، بہاولپور تین، جھنگ سے ایک ڈرگ انسپکٹر کو معطل کیا گیا ہے۔ اسی طرح رحیم یار خان سے دو قصور اور خانیوال سے ایک ایک ڈرگ انسپکٹر کو معطل کیا گیا ہے۔ معطل ہونے والوں میں ڈرگ انسپکٹرز، ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر اور ڈرگ کنٹرولر شامل ہیں۔
لاہور سے دو ڈرگ انسپکٹر اور ایک ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر معطل کیا گیا۔ صوبائی دارالحکومت سے معطل ہونے والوں میں دانیال الٰہی چیمہ، شیر محمد زمان جبکہ ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر رانا محمد شاہد بھی شامل ہیں۔
اسی طرح جھنگ سے مس عطیہ نواز ڈرگ کنٹرولر، بہاولپور سے ڈرگ کنٹرولر علی رضا، ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر امجد فاروق، بہاولپور سے ہی ڈرگ کنٹرولر رانا محمد اکرم، رحیم یار خان سے ڈرگ کنٹرولر امیر شاہد اور ڈپٹی ڈرگ کنٹرولر فرخ سلیم، ضلع قصور سے ڈرگ کنٹرولر ثناء اللہ سیف اور خانیوال سے ڈرگ کنٹرول رانا محمد اکرم شامل ہیں۔
اواسٹن انجیکشن سے متعلق اب تک کے حقائق
پنجاب میں اواسٹن نامی انجیکشن سے بینائی متاثر ہونے کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے رہنما چوہدری منظور نے سوشل میڈیا پر بتایا کہ کیسے ان کے بھائی نے اواسٹن انجیکشن لگوایا اور پھر ان کی بینائی چلی گئی۔ بعد ازاں پنجاب بھر میں اس طرح کے درجنوں کیسز رپورٹ ہوئے اب تک سرکاری ریکارڈ کے مطابق ان کی تعداد 68 ہو چکی ہے۔
پنجاب کے نگراں وزیر برائے پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ ڈاکٹر ناصر جمال سے جب اس معاملے کے اب تک دستیاب حقائق سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’بنیادی طور پر اواسٹن انجیکشن ایک مستند دوا ہے جو انتڑیوں کے کینسر میں استعمال ہوتی ہے۔ اور اس کو بوش نامی ملٹی نیشنل کمپنی بناتی ہے۔ اس دوا کا آف لیبل استعمال یہ ہے کہ ذیباطیس کے مریضوں میں اگر بینائی جانے کا خدشہ پیدا ہو جائے تو اسی انجیکیشن کا معمولی سا حصہ آنکھ کے ریٹینا میں لگایا جاتا ہے۔ جس سے آنکھ میں نئی خون کی نالیاں کھلنے کا سلسلہ رک جاتا ہے اور بینائی بچ جاتی ہے اور پوری دنیا میں یہ دوائی دونوں مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہے۔‘
ڈاکٹر ناصر جمال نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اب آپ کے سوال کی طرف آجاتے ہیں کہ پنجاب میں ہوا کیا؟ ابھی تک جو باتیں سامنے آئی ہیں ان میں اس بات کے اشارے ملے ہیں کہ کچھ لوگوں نے مارکیٹ سے اس انجیکشن کو اٹھایا ہے اور اس کی لیبلنگ خود کی ہے اور اس کو بیچا ہے۔‘
’وجہ یہ ہے کہ اس ٹیکے کی مالیت 28 ہزار روپے ہے۔ آنکھ میں اس کا تھوڑا سا حصہ لگتا ہے اس لیے ایک انجیکشن سے نکال کر اس کو چھوٹی چھوٹی سرنجوں میں بھر کے یہ ان لوگوں کو بیچتے ہیں، جن کی آنکھیں ذیابطیس کی وجہ سے خراب ہو رہی ہوتی ہیں۔ یہ ایک ٹیکہ تقریباً ایک لاکھ روپے میں بیچتے ہیں۔ اس ٹیکے کو چار سے آٹھ سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر رکھنا ہوتا ہے۔ دوسرا اس کے کھلنے کے چھ گھنٹے تک اس کی افادیت رہتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ کچھ منافع خوروں نے اسی چکر میں دوا کو نقصان پہنچایا ہے، لیکن حتمی طور پر ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘
یاد رہے کہ محکمہ صحت نے اواسٹن کے پاکستان کے ڈسٹری بیوٹر سے دوا کے سیمپل کے کر انہیں لیبارٹری بھجوایا ہے۔ ڈاکٹر ناصر جمال کے مطابق ’جہاں جہاں یہ انجیکشن پڑا تھا جیسا کہ شوکت خانم ہسپتال ہے اور سائرہ میموریل ہے، اس کے علاوہ ڈسٹری بیوٹر اور مارکیٹ سے ہم نے نمونے لیے ہیں، ان کو لیب بھیجا ہے اور دس سے پندرہ دن میں رپورٹ آجائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دو باتیں سامنے آئیں گی ایک تو اگر اس دوا کے بیچ میں مسئلہ ہوا تو کمپنی اور ڈسٹری بیوٹر ذمہ دار ہوں گے اور اگر دوسرا معاملہ ہوا تو ان افراد کو پکڑیں گے جو آنکھوں کے استعمال کے لیے اس کو چھوٹی پیکنگ میں بیچ رہے تھے۔‘
پنجاب حکومت نے اس انجیکشن کے صرف آنکھوں کے استعمال پر تا حکم ثانی پابندی عائد کی ہے۔ کینسر کے مریضوں میں اس کا استعمال نہیں روکا گیا۔
دوسری طرف محکمہ صحت، پولیس اور ہیلتھ کئیر کمیشن کی ٹیمیں ایسے افراد کی کھوج میں ہیں جو اس انجیکشن کو ری پیکج کرکے آنکھوں کے استعمال کے لیے بیچ رہے تھے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ کچھ افراد حراست میں لیے بھی گئے ہیں۔
خیال رہے کہ 2011 میں امریکہ کی دو ریاستوں میں بھی اس انجیکشن کے آنکھوں کے استعمال کے دوران بینائی جانے کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔