Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صحافی کے گھر والے ضلع بدر، ’خاندان کے لیے وزیرستان میں کہیں بھی پناہ نہیں‘

معراج خالد نے کہا کہ میرے والد کو فون کرکے پانچ لاکھ روپے ادا کرنے کا کہا گیا تھا اور آج ڈیڈلائن مکمل ہونے پر گھر خالی کروانے کی دھمکی ملی۔ (فوٹو: معراج خالد)
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضم قبائلی ضلع جنوبی وزیرستان میں زلی خیل قوم کے جرگہ مشران نے ایک مقامی صحافی کی جانب سے اس پر عائد پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ ادا نہ کرنے پر اس کے گھر والوں کو ضلع بدر کر دیا ہے۔
جرگے نے جرمانے کی عدم ادائیگی پر نوجوان صحافی معراج خالد کا گھر مسمار کرنے کا بھی حکم دیا ہوا ہے۔
صحافی معراج خالد پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر زلی خیل قوم کمیٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ معراج خالد نے جرگے کی جانب سے علاقے کے ایک شخص کا گھر مسمار کرنے کے فیصلے کے خلاف سوشل میڈیا پر احتجاج کیا تھا۔
معراج خالد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا جرم یہ ہے کہ میں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ میں ریاست کے اندر ریاست بنانے والوں کے خلاف لکھتا رہوں گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ میرے والد کو فون کرکے پانچ لاکھ روپے ادا کرنے کا کہا گیا تھا اور آج ڈیڈلائن مکمل ہونے پر گھر خالی کروانے کی دھمکی ملی۔
معراج خالد کے مطابق ان سے پہلے پانچ لاکھ روپے مانگے گئے پھر بات 10 لاکھ روپے تک پہنچی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں چین میں تعلیم کے لیے آیا ہوں مگر وہاں (جنوبی وزیرستان میں) میرے گھر والوں کو ڈرا دھمکا کر پریشان کیا ہوا ہے۔‘
’میں نے والد کو کہا کہ ایک روپیہ بھی ان کو نہیں دینا کیونکہ یہ جرمانہ نہیں بھتہ ہے۔‘

معراج خالد کے مطابق ان کے گھر والے اسلام آباد کے لیے نکل چکے ہیں۔ (فوٹو: معراج خالد)

مقامی صحافی کا مزید کہنا تھا کہ ’میرے گھر والے اس وقت گھر چھوڑ کر اسلام آباد کے لیے نکل چکے ہیں اور میرا گھر سیل کر دیا گیا ہے۔ اب میرے گھر والے وزیرستان میں کہیں بھی پناہ نہیں لے سکیں گے، اگر کسی نے میرے گھر والوں کو پناہ دی تو اس کا گھر بھی مسمار کیا جائے گا۔‘
معراج خالد نے حکومت اور انتظامیہ سے سوال بھی کیا کہ اس سارے معاملے میں ان کی خاموشی معنی خیز ہے۔
دوسری جانب زلی خیل قومی کمیٹی ممبر ملک محمد اسلم نے موقف اپنایا کہ یہ کمیٹی امن اور انصاف کے فروغ کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم قانون اور حکومت کے خلاف نہیں، ہم چاہتے ہیں مقامی مسائل جرگے کے ذریعے حل کیے جائیں۔
ملک محمد اسلم کا مزید کہنا تھا کہ مقامی صحافی سوشل میڈیا پر کمیٹی کے خلاف ’منفی پروپیگنڈا‘ کر رہا تھا اس لیے یہ فیصلہ لیا گیا۔
مقامی پولیس نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ صحافی کے گھر کی حفاظت کے لیے گزشتہ رات سے پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے تاکہ اہل علاقہ اور جرگے کے مشران کا کسی قسم کا تصادم نہ ہو۔

نگراں وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال کے مطابق  ’جرگے کے نام پر غیر قانونی فیصلے کسی صورت قابل قبول نہیں ہوں گے۔‘ (فائل فوٹو: فیروز جمال فیس بک)

اس معاملے پر نگراں وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال نے نوٹس لے کر ضلعی انتظامیہ سے تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جرگے کے نام پر غیر قانونی فیصلے کسی صورت قابل قبول نہیں ہوں گے۔‘
واضح رہے کہ صحافی معراج خالد کے گھر کو سیل کرنے کی خبر پر ملک بھر کی سماجی اور سیاسی شخصیات کے علاوہ سینیئر صحافیوں نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے شمالی وزیرستان کے اتمانزئی جرگے نے سزا کے طور دو شہریوں کے گھر نذر آتش کیے تھے جبکہ بھاری جرمانے بھی وصول کیے گئے۔

شیئر: