کمرے میں زیادہ بھیڑ نہیں تھی۔ ایک درجن سے بھی کم لوگ تھے لیکن تقریباً تمام چہرے شناسا تھے۔ سر پر سفید ٹوپی پہنے ایک باریش شخص سب سے باری باری گلے مل رہا تھا۔ اور پھر ان کی نظر مجھ پر پڑی، میں دروازے سے آگے بڑھ کر بغل گیر ہوا۔
عمران ریاض سے کئی سالوں بعد ملاقات ہو رہی تھی۔ اور یہ معانقہ طوالت اختیار کر گیا۔
گلے لگے ہوئے عمران ریاض نے کہا ’رائے تو مجھے دو بار یاد آیا‘۔
مزید پڑھیں
-
عمران ریاض کو ہر صورت پیر تک بازیاب کرایا جائے: لاہور ہائیکورٹNode ID: 766076
-
اینکر عمران ریاض خان بازیاب ہو کر گھر پہنچ گئے، وکیل کی تصدیقNode ID: 798461
عمران نے یہ جملے بے ربطی میں کہے کیونکہ ان کی زبان میں لکنت تھی اور فضا تھوڑی جذباتی ہو گئی۔
یہ ملاقات کئی مہینوں سے جبری طور پر لاپتہ صحافی عمران ریاض کی اچانک بازیابی کے بعد ان کے گھر کے ڈرائنگ روم میں ہو رہی تھی۔ بزرگ صحافی مجیب الرحمٰن شامی کے علاوہ اجمل جامی، محمد الیاس اور اکبر باجوہ کے ساتھ میں بھی عمران ریاض کی خیریت دریافت کرنے کے لیے ان کے گھر پر موجود تھا۔
اجمل جامی، عمران ریاض اور میں نے 2007 میں ایک ہی دن ایک ہی وقت ایک ہی ادارے سے ٹی وی صحافت کا آغاز کیا تھا۔ لیکن جلد یا بدیر سب کے راستے جدا ہو گئے۔
ڈرائنگ روم کی فضا میں عجیب سی خاموشی تھی کہ عمران ریاض نے ہنستے ہوئے اور اپنے لفظوں کو زبردستی جوڑتے ہوئے کہا ’مشکل وقت گزر گیا ہے،‘ اور سب کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
میں نے عمران ریاض کے تین روپ دیکھے ہیں۔ ایک پندرہ برس پہلے والا جب انہوں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ اس وقت وہ صحافتی بھول بھلیوں سے نابلد تھے۔
دوسرا روپ ان کی شہرت کا تھا جب انہوں نے صحافت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کی دنیا میں قدم رکھا۔ اسی دوران عمران ریاض سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔
اور اب یہ ان کا تیسرا روپ! یہ بالکل ہی الگ عمران ریاض تھے۔ بس کبھی کبھی پہلے روپ کی پرچھائی ان کے چہرے سے گزر جاتی تھی۔ لیکن اب تیسرے روپ کو وہی سمجھ سکتا جو ان کو قریب سے دیکھ لے۔
