Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلزار کی ویران زندگی

جیل میں برباد برسوں کیلئے سرکار اسے معاوضہ ادا کرے اور یہ معاوضہ تعلیمی لیاقت کے مطابق اوسط آمدنی کے مطابق دینا ہوگا
- - - -  - - - - - -
معصوم مرادآبادی
 - - - - - - -  - -
سابرمتی ایکسپریس بم دھماکہ کے ملزم گلزار احمد وانی کودہشتگردی کے الزامات سے بری کرتے ہوئے بارہ بنکی کی عدالت نے جو کچھ کہا ہے، وہ ہمارے ملک کے بیمار اور متعصب قانونی نظام کے منہ پر ایک ایسا زوردار طمانچہ ہے جس کی باز گشت دور تک سنائی دی ہے۔ اپنی زندگی کے 16قیمتی سال جیل میں گزار کر بری ہونے والے گلزار احمد کی زندگی میں اب وہ رونق شاید ہی واپس آئے جو عین جوانی کے دنوں میں اسے گرفتار کرتے وقت موجود تھی لیکن عدالت نے اس کی مایوس زندگی میں یہ کہہ کر امید کی ایک کرن ضرور پیدا کی ہے کہ ان 16 برسوں میں گلزار احمد نے جو ذہنی اذیت اور مالی پریشانیاں جھیلی ہیں، اسے ان کا بھرپور معاوضہ ملنا چاہئے۔ عدالت نے کہا ہے کہ اس معاوضے کی رقم اس معاملے میں جانچ کررہے افسران سے وصول کی جانی چاہئے۔
واضح رہے کہ گلزار احمد وانی کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے 2000میں سابرمتی ایکسپریس میں ہوئے بم دھماکوں کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا جس میں 9لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے طالب علم گلزار احمد وانی کو 30جولائی 2001کو گرفتار کرکے ان کیخلاف مختلف دفعات کے تحت ایک دو نہیں پورے11 مقدمات درج کئے گئے تھے۔ 10 مقدمات میں وہ بری ہوگئے۔ دہلی میں بم دھماکے کے تعلق سے وانی کو 10سال کی سزا ہوئی تھی لیکن دہلی ہائی کورٹ نے ابھی یہ سزا معطل کررکھی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں گرفتار ہونے والے ایسے نوجوانوں کی ایک طویل فہرست ہے جنہیں فرضی مقدمات میں ملوث کرکے دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور انہوں نے اپنی زندگی کا سنہرا دور جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا لیکن جب ان کے مقدمات آخری مراحل میں آئے تو پولیس اور تحقیقاتی ایجنسیاں ان کیخلاف ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہیں اور ان نوجوانوں کو باعزت بری کردیا گیالیکن ہر بار جب بھی ان نوجوانوں کو بری کرنے کی خبریں منظرعام پر آئیں تو انسانی حقوق کے کارکنوں اور سرکردہ تنظیموں نے اس بات کا پرزور مطالبہ کیا کہ ان نوجوانوں کو جھوٹے کیسوں میں ملوث کرنیوالے افسران کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے اور متاثرہ نوجوانوں کو معقول معاوضہ ملنا چاہئے لیکن ہر بار یہ مطالبہ نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوا۔ دہشتگردی کے جھوٹے مقدمات کا سامنا کرنے والے مسلم نوجوانوں کی تعداد اس ملک میں10،20 نہیں بلکہ سیکڑوں ہے لیکن ابھی تک کسی عدالت نے اس قسم کے کسی ملزم کو باعزت بری کرتے ہوئے یہ نہیں کہا تھا کہ اسے باقاعدہ معاوضہ ادا کیاجائے اور یہ معاوضہ ان افسران سے وصول کیاجائے جنہوں نے اس کیس کی تحقیقات کی ہے۔
گلزار احمد وانی کا کیس اس اعتبار سے ایک منفرد ہے جس میں عدالت نے اس حوالے سے بہت واضح موقف اختیار کیا ہے حالانکہ اس سے قبل حیدرآباد کی مکہ مسجد بم دھماکہ کیس میں ملوث کئے گئے بے قصور مسلم نوجوانوں کے معاملے میں عدالتی کارروائی کے بعد حکومت معاوضہ ادا کرنے پر مجبور ہوئی تھی لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ خود عدالت نے ایک بے قصور مسلم نوجوان کو باعزت بری کرتے ہوئے معاوضے کی ادائیگی کرنے اور یہ رقم تحقیقاتی افسران کی جیبوں سے نکالنے کا حکم دیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی تحقیقاتی ایجنسیاں اور پولیس اہلکار کسی بھی بم دھماکے یا دہشتگردانہ کارروائی کے بعد فوری طور پر اس میں مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کرلیتے ہیں اور ان پر دباؤ ڈال کر یا انہیں ٹارچر کرکے سادے کاغذوں پر دستخط لے کر ان کا جھوٹا بیان ثبوت کے طورپر پیش کردیتے ہیں جو عدالت میں اقبال جرم کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔
گلزار وانی کے معاملے میں بھی پولیس اور تحقیقاتی افسران نے وہی روش اختیار کی تھی۔ دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے وانی کو اس وقت ایک سازش کے تحت پھنسایا جب وہ بارہ مولہ سے براستہ دہلی علی گڑھ جارہے تھے۔ وانی نے اپنے بیان میں یہ کہا تھا کہ دہلی پولیس نے انہیں 10 روز تک غیر قانونی طورپر حراست میں رکھا اور ان سے سادے کاغذوں پر دستخط کروائے۔ اسپیشل سیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ وانی نے سابرمتی دھماکے میں اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ اسپیشل سیل کے آنجہانی انسپکٹر برجیش دت نے 30جولائی2001کو عدالت میں دیئے اپنے بیان میں کہاتھا کہ انہوں نے ایک کشمیری کا پیچھا کیا تھا ۔ وہ دہلی میں واقع اپنے گھر سے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پہنچا جہاں اسے 2دیگر لوگوں کو دھماکہ خیز مادہ سپرد کرتے وقت پکڑا گیا تھا۔ پکڑے گئے شخص کی پہچان گلزار احمد وانی کے طور پر ہوئی تھی لیکن وانی کا بیان لینے والے اسپیشل سیل کے ہی سب انسپکٹر گرودیو سنگھ نے عدالت سے کہاتھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ وانی کو کہاں سے گرفتار کیاگیا تھا۔
اسپیشل سیل کے انسپکٹر گووند شرما نے عدالت کو بتایا تھا کہ وانی کے پاس سے کچھ بھی برآمد نہیں ہوا تھا۔ 27صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں بارہ بنکی کے ایڈیشنل سیشن جج محمد احمد خان نے کہاہے کہ وانی نے بیان دیا تھا کہ ان کی گرفتاری دہلی اور یوپی پولیس کی ملی بھگت اور سازش کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے ہندی میں تحریر کئے گئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ وانی تحقیقاتی افسران کی لاپروائی کا شکار ہوا ہے۔ تحقیقاتی افسران نے چارج شیٹ داخل کرنے میں لاپروائی کا رویہ اختیار کیا اور وانی کو قید رکھا۔ اسے جسمانی اور ذہنی اذیتیں بھی دی گئیں جس سے ثابت ہو کہ وانی نے 2000 میں ہوئے سابرمتی دھماکے کی سازش رچی تھی، اس کیلئے اترپردیش حکومت ذمہ دار ہے۔ جیل میں برباد برسوں کیلئے سرکار اسے معاوضہ ادا کرے اور یہ معاوضہ تعلیمی لیاقت کے مطابق اوسط آمدنی کے مطابق دینا ہوگا۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ حکومت چاہے تو ذمہ دار افسران سے بھی معاوضے کی رقم وصول کرسکتی ہے۔ اگر حکومت معاوضہ نہیں دیگی تو وانی الٰہ آباد ہائی کورٹ جانے کیلئے آزاد ہے۔

شیئر: