Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں دہشت گردی کی لہر، ’افغانستان نے کمٹمنٹ پوری نہیں کی‘

اتوار کو میانوالی میں پولیس پوسٹ پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان گذشتہ طویل عرصے سے سنگین معاشی چیلنجز کا سامنا تو کر ہی رہا ہے لیکن حالیہ چند ماہ سے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں بھی تیزی آ گئی ہے۔
دو دن قبل جمعے کو بلوچستان کے ضلع مستونگ اور خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو میں ہونے والے خود کش حملوں میں 57 افراد ہلاک جبکہ 90 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
اس کے دو دن بعد اتوار کو صوبہ پنجاب کے خیبرپختونخوا سے متصل ضلع میانوالی میں پولیس کی ایک پیٹرولنگ پوسٹ پر عسکریت پسندوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک اہلکار کی جان چلی گئی جبکہ دو حملہ آور مارے گئے۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان محمد خراسانی نے ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور اپنے ایک حالیہ بیان میں دعویٰ کیا کہ ستمبر کے مہینے میں ٹی ٹی پی نے پاکستان کے مختلف علاقوں میں مجموعی طور پر 106 حملے کیے۔ ان میں 100 حملے صوبہ خیبرپختونخوا کے اضلاع میں ہوئے جبکہ چار بلوچستان میں ہوئے۔
معاشی مسائل اور سیاسی عدم استحکام کے چینلج سے نبرد آزما پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی کی وجوہات کیا ہیں اور اس کے مستقبل قریب میں کیا نتائج ہو سکتے ہیں؟
عسکریت پسندوں کی کارروائیوں پر نگاہ رکھنے والے دفاعی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کچھ بیرونی قوتیں پاکستان کو معاشی و سیاسی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتیں۔ اس لیے وہ پاکستان مخالف گروہوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں۔

افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر ایک ہیں

سندھ کے نگران وزیر داخلہ اور دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے جو واقعات ہو رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لوگ ملوث ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’افغان طالبان اور ٹی ٹی پی نظریاتی طور پر ایک ہی ہیں۔ امریکہ افغانستان سے نکلتے ہوئے جان بوجھ کر اسلحہ پیچھے چھوڑ گیا ہے جو ٹی ٹی پی، بی ایل اے، بی ایل ایف اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جسے وہ پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔‘
عسکریت پسندوں کے حملوں میں حالیہ تیزی سے متعلق سوال پر حارث نواز کا کہنا تھا کہ ’یہ گروپس کسی بھی صورت پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان کے پیچھے انڈیا اور کچھ اور ممالک کا بھی ہاتھ ہے۔‘

 حارث نواز کا کہنا تھا کہ عسکریت پسند کسی بھی صورت پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وہ سی پیک کی تکمیل کو کسی بھی قیمت پر روکنا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں اندازہ ہے کہ اگر یہ منصوبہ بن گیا تو پاکستان کی معیشت کے لیے ایک بہت بڑا جمپ ثابت ہو گا۔ اس وقت چین کو مڈل ایسٹ اور دیگر منڈیوں تک سمندر کے راستے پہنچنے میں 90 دن لگتے ہیں۔ اگر سی پیک بن گیا تو یہ سفر کاشغر کے راستے صرف آٹھ دن میں طے ہو گا۔ ظاہر ہے اس سے پورے خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔‘

’افغانستان کے ساتھ بارڈر پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی‘

دفاعی امور کے ماہر اور تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’افغانستان بارڈر پر ہماری توجہ بہت زیادہ نہیں ہے اسے لیے وہاں ٹی ٹی پی وغیرہ کی سرگرمیاں بڑھی ہیں۔ ٹی ٹی پی کافی منظم گروپ ہے جو اب پاکستان پر اس علاقے سے دباؤ ڈال رہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’افغانستان سے متصل پاکستان کے کافی علاقے پر ان کا اثر رسوخ ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید انہیں وہاں حاصل مقامی حمایت ہے یا پھر مقامی افراد حکومت کی مکمل رٹ نہ ہونے کے باعث ٹی ٹی پی کے لوگوں سے بگاڑنا نہیں چاہتے تاکہ وہ محفوظ رہیں۔ وہ خوف کا شکار ہیں۔‘
اصل بات یہ ہے کہ اس بارڈر پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ یہاں بہت کچھ چل رہا ہے۔‘ 
جنرل (ر) طلعت مسعود نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے ساتھ متصل پاکستانی علاقوں کے لیے ایک جامع پالیسی کی ضرورت تھی۔ وہاں کے لوگوں کو تعلیم ، صحت اور دیگر سہولیات دینا ضروری تھا۔‘
’انہیں سولائیزڈ سچویشن میں داخل کرنا چاہیے تھا لیکن حکومتیں انہیں آج تک ایسے ہی ٹریٹ کر رہی ہیں جیسے ماضی میں انگریز حکمران کیا کرتے تھے۔ فاٹا کے علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام تو ہوا تو لیکن بات کتابی انضمام سے آگے نہیں بڑھی۔ ان علاقوں پر توجہ دینے کی ضرورت تھی۔‘
طلعت مسعود کےخیال میں ’اگر دہشت گردی کا سلسلہ نہ رکا تو الیکشن کچھ علاقوں میں متاثر ہو گا۔ لیکن یہ کہنا کہ الیکشن ہی نہیں ہو گا، یہ درست نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک معیشت کا سوال ہے تو جب تک پاکستان میں پاپولر مینڈیٹ کی حامل حکومت قائم نہیں ہوتی، معاشی استحکام نہیں آئے گا۔ ایک منتخب حکومت کا قیام پاکستان کے بین الاقوامی امیج کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس لیے الیکشن ہونا ناگزیر ہے۔‘
افغان باشندوں کی نگرانی کی ضرورت ہے‘
حارث نواز نے بتایا کہ ’دوسرا مسئلہ پاکستان میں مقیم افغان باشندوں کا ہے۔ 30 سے 40 لاکھ افغان باشندے یہاں موجود ہیں جن پر چیک کی ضرورت ہے۔

دو دن قبل  مستونگ اور ہنگو میں ہونے والے خود کش حملوں میں 59 افراد ہلاک جبکہ 90 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر دہشت گردوں کی جانب سے حملے اسی طرح جاری رہے تو الیکشن کیسے ہوں گے۔ عوامی نمائندے جنہیں الیکشن مہم پر نکلنا ہوتا ہے، ان کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔‘
بریگیڈیئر (ر) حارث نواز نے افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے تعلق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹی ٹی پی کے لوگوں نے افغانستان سے امریکہ کو نکالنے میں طالبان کی مدد کی اور اب طالبان انہیں شیلٹر فراہم کر رہے ہیں۔‘
افغان طالبان نے اپنی کمٹمنٹ کی پاسداری نہیں کی
ہمارا افغان طالبان سے مطالبہ یہی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دیں لیکن انہوں نے یقین دہانی کے باوجود اپنی کمٹمنٹ کی پاسداری نہیں کی۔‘
ملک کے مختلف حصوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کے حوالے ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری فورسز دہشت گردوں کے خلاف سرگرم ہیں لیکن اس میں عوام کا تعاون بہت اہم ہے۔ جب کسی علاقے میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر وہاں فورسز پہنچیں تو عوام کو ان کی مزاحمت کے بجائے ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔‘
دہشت گردی کے جڑوں کے خاتمے پر کام نہیں ہوا
سینیئر تجزیہ کار زاہد حسین نے اردو نیوز  کے رابطہ کرنے پر کہا کہ ’دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد ٹی ٹی پی سے وابستہ لوگ بڑی تعداد میں اِدھر (پاکستان) میں واپس آ گئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دوسری وجہ یہ ہے کہ یہاں ٹی ٹی پی اور دیگر ایسے عناصر کے خلاف ماضی میں کارروائیاں تو ہوئیں لیکن دہشت گردی کی جڑیں ختم کرنے کے لیے کوئی طویل المدت پالیسی نہیں بنائی گئی۔
آپ کبھی ٹی ٹی پی کے خلاف آپریشن کرتے ہیں تو کبھی ان کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے ان گروہوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ آپ کے پاس ان کے ساتھ مفاہمت کا آپشن موجود ہے۔

دہشت گردی کا معیشت پر براہ راست اثر پڑتا ہے

اگر عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہو تو آئندہ عام انتخابات پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے؟ زاہد حسین کے مطابق ’صرف یہ مسئلہ نہیں، اگر کہیں بھی لا اینڈ آرڈر کی صورتحال پیدا ہو تو اس کے اثرات تو ہوتے ہیں لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان حملوں کا الیکشن سے کوئی براہ راست تعلق ہے۔
معیشت کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’جب ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہوں تو نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری رک جاتی ہے بلکہ ملکی سرمایہ کار بھی اپنا ہاتھ روک لیتے ہیں۔ ماضی میں ہم نے یہ دیکھا ہے۔ اس وقت کی معیشت پر دہشت گردوں کی کارروائیوں کا اثر پڑا ہے۔ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو معیشت بہرصورت متاثر ہو گی۔

شیئر: