ڈاکو گبر سنگھ کی موت کی خبر جو نہرو کو سالگرہ کے تحفے کے طور پر سنائی گئی
ڈاکو گبر سنگھ کی موت کی خبر جو نہرو کو سالگرہ کے تحفے کے طور پر سنائی گئی
منگل 3 اکتوبر 2023 21:04
یوسف تہامی، دہلی
جس علاقے میں گبر سنگھ کارروائیاں کرتا تھا، اس وقت وہاں کے آئی جی خسرو رستم جی تھے (فائل فوٹو: مصنف)
انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کے سابق سپیشل سکیورٹی فورس افسر خسرو فرامرز رستم جی اپنے وزیر اعظم کو ان کے یوم پیدائش کا تحفہ دینے کے لیے بے چین ہیں۔ وہ انہیں ایک خبر دینا چاہتے ہیں اور یہ خبر ایک مشہور زمانہ ڈاکو کی موت کی خبر ہے۔
کیا کسی کی موت کسی کے لیے تحفہ ہو سکتی ہے؟ لیکن جب بات مشہور زمانہ اور انتہائی خطرناک ڈاکو گبر سنگھ کی ہو تو یہ کسی کے لیے بھی راحت کا سانس ہو سکتی ہے کیونکہ اس نے مدھیہ پردیش، راجستھان اور اترپردیش کے خطے پر محیط چنبل کے پورے علاقے میں خوف و ہراس اور دہشت کا ایسا ماحول پیدا کر رکھا تھا کہ حکومت ہند نے اس کے سر پر 50 ہزار کا انعام رکھا تھا جو اس وقت تک کسی کے سر کی سب سے زیادہ قیمت تھی۔
انڈیا کی بلاک بسٹر فلم ’شعلے‘ کا کردار گبر سنگھ اسی اصلی گبر سنگھ پر مبنی ہے جس نے وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے بھنڈ میں پولیس کی ناکوں میں دم کر رکھا تھا اور کشت و خون کا بازار گرم کر کھا تھا۔
بہرحال جب گبر سنگھ پولیس کے ساتھ ایک خونی جھڑپ میں 13 نومبر 1959 کو مارے گئے تو جواہر لعل نہرو کے سابق نائب نے ان کی موت کی خبر کو وزیراعظم کے یوم پیدائش 14 نومبر کے لیے ایک تحفے کے طور پر استعمال کیا۔ انہوں نے یہ بات اپنی مشہور تصنیف ’دی برٹش، دی بینڈت اینڈ دی بورڈر مین‘ میں لکھی ہے۔
فلم شعلے کے سکرپٹ رائٹر سلیم جاوید نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ جب وہ گبر سنگھ کا تعارف کراتے ہیں تو خود ان کے منہ سے وہ بات کہتے ہیں جو حقیقت پر منبی ہوتی ہے۔
فلم میں گبر سنگھ اپنے گینگ کے ساتھی سانبھا سے پوچھتے ہیں: ’ارے او سانبھا! سرکار نے ہم پر کتنے کا انعام رکھے ہیں؟ تو سانبھا جواب دیتا ہے: سردار، 50 ہزار۔ اس کے بعد وہ اس کی تاویل بتاتے ہیں کہ ’سرکار نے یہ انعام اس لیے رکھے ہیں کہ یہاں سے پچاس پچاس کوس (یعنی سو سو میل) دور جب رات کو کوئی بچہ روتا ہے تو ماں کہتی ہے کہ بیٹا سو جا ورنہ گبر آ جائے گا۔‘
گبر کی دہشت کا عالم فلم میں تو اس طرح بیان کیا گیا ہے لیکن دراصل حقیقی زندگی میں وہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک تھا۔ آئیے اصلی گبر کے بارے میں جانتے ہیں۔
گبر سنگھ کے بچپن کا واقعہ
انڈین میڈیا کے مطابق گبر سنگھ برطانوی راج 1926 میں مدھیہ پردیش کے بھنڈ ضلعے کے ڈانگ گاؤں میں ایک گوجر خاندان میں پیدا ہوا۔ اس کا اصل نام پریتم سنگھ تھا لیکن اسے پیار سے گبرا کہہ کر بلاتے تھے۔
غریب خاندان میں پیدا ہونے والا گبر بچن سے ہی تندرست تھا۔ اس کے والد کے پاس کچھ زمین تو تھی لیکن گزربسر کے لیے محنت مزدوری بھی کرنی پڑتی تھی۔
جب پریتم سنگھ عرف گبرا بڑا ہوا تو اسے بھی پتھر نکالنے اور توڑنے والی کان میں مزدوری پر رکھ لیا گیا۔ زمین کے قضیے کے معاملے میں گاؤں کے بااثر لوگوں نے اس کے والد کی پٹائی کر دی۔ اس معاملے پر پنچایت بلائی گئی لیکن گبرا کو انصاف نہ ملا اور پنچایت نے اس کی زمین اپنے قبضے میں لے لی۔
اس ناانصافی پر گبرا کا خون کھول اٹھا اور اس نے اپنے والد کو مارنے والوں میں سے دو افراد کا قتل کر دیا۔ قتل کرنے کے بعد وہ گاؤں سے فرار ہو گیا اور وہاں سے سیدھا چنبل پہنچا جو کہ ایسے لوگوں کی پناہ گاہ سمجھا جاتا تھا۔ وہ اس وقت کے مشہور ڈاکو کلیان سنگھ کے گروہ میں شامل ہو گیا جہاں اس نے بندوق چلانے سمیت ڈاکہ ڈالنا بھی سیکھ لیا لیکن جلد ہی اس نے اپنا علیحدہ گروپ قائم کر لیا اور علاقے میں لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔
آئے دن اس کی لوٹ مار نے پولیس کے ناکوں میں دم کر دیا اور پولیس نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن اس کے خوف کی وجہ سے کسی بھی دوسرے گروہ نے اس کی مخبری سے انکار کر دیا۔
ہندی نیوز چینل اے بی پی کے مطابق جب پولیس نے اس کے متعلق بچوں کے استعمال کا منصوبہ بنایا تو یہ بات کسی طرح گبرا کو پتا چل گئی جو کہ اب سردار گبر سنگھ کے نام سے پکارا جانے لگا تھا۔ اس نے 1957 میں ایک ہی گاؤں کے 21 بچوں کو مخبری کے شبے میں گولیوں سے بھون دیا۔
اخبار نوبھارت ٹائمز کے مطابق اس خبر نے نہ صرف علاقے میں دہشت کا ماحول پیدا کیا بلکہ دہلی میں اس وقت کے انڈیا کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو بھی اس خبر پر بے قرار ہو گئے اور اس قدر مشتعل ہو گئے کہ اسے کسی بھی قیمت پر ختم کرنے کا حکم صادر کر دیا۔
اس وقت تک گبر سنگھ پر مختلف تھانوں میں قتل، لوٹ مار، ڈاکہ اور اغوا کے 200 سے زیادہ واقعات درج کیے جا چکے تھے۔
جواہر لعل نہرو کے حکم کے بعد ریاستی وزیراعلیٰ نے کہا کہ ’مجھے گبر سنگھ کسی بھی قیمت پر زندہ یا مردہ چاہیے‘ اور اس بات نے ریاستی حکومت پر دباؤ بڑھا دیا اور اسے پکڑنے کے لیے سپیشل ٹاسک فورس بنائی گئی۔
وہ لاشوں کے ناک کان کاٹ لیا کرتا تھا
نوبھارت ٹائمز کے مطابق اس کی گرفتاری پر مدھیہ پردیش حکومت نے 50 ہزار کا انعام رکھا جبکہ اتنے ہی انعام کا اترپردیش حکومت نے اعلان کیا۔ اس کے علاوہ حکومت راجستھان نے 10 ہزار روپے کا انعام رکھا۔ اس طرح یہ ان پر کل ایک لاکھ 10 ہزار کا انعام تھا۔
سنہ 1955 میں ڈکیتی کی دنیا میں آنے والے گبرا نے صرف دو سال کے اندر لوٹ مار اور قتل غارت کا ایسا بازار گرم کیا جو اس سے قبل کہیں نہیں دیکھا گیا تھا۔
امر ہونے یا امیر ہونے کی خواہش میں نہ جانے کتنے لوگوں نے کیا کیا برائیاں کی ہیں، اس کا تو اندازہ نہیں لگایا جا سکتا لیکن توہم پرست گبر سنگھ کے دل میں یہ بات گھر کر گئی اور اس نے اس سلسلے میں 116 کے بجائے 166 لوگوں کے ناک کان کاٹ لیے۔ اس میں بہت سارے پولیس والے بھی شامل تھے۔
وہ عام طور پر قتل کرنے کے بعد لاشوں کے ناک کان کاٹ لیا کرتا تھا جس کی وجہ سے علاقے میں مزید خوف رہنے لگا تھا۔ اگر وہ کسی کو تاوان کے لیے اغوا کرتا تو اسے چھوڑنے سے پہلے اس کے ناک کان کاٹ لیا کرتا تھا۔
اس علاقے میں کوئی بھی شخص اگر ناک کان کٹا ملتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ وہ گبر کے ظلم و ستم کا نشانہ بنا ہے۔ ان واردات کی وجہ سے پورے علاقے میں اس کی دہشت پھیل گئی تھی اور اس سے تین ریاستیں مدھیہ پردیش، اترپردیش اور راجستھاں زیادہ متاثر تھیں۔
اس وقت اس علاقے کے آئی جی خسرو رستم جی تھے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پولیس نے سپیشل ٹاسک فورس بنائی اور ڈی ایس پی راجیندر پرساد مودی کو اس کا انچارج مقرر کیا۔ پولیس نے جنگل میں ڈیرہ ڈال دیا لیکن اس کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔
گبر کی موت خبر جب جواہر لعل نہرو کو ملی
ہندی اخبار بھاسکر کے مطابق تین سال تک پولیس کو ایک بھی مخبر نہیں ملا لیکن پھر ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے عوام کا پولیس پر اعتماد پیدا کیا۔
واقعہ یوں ہے کہ بھنڈ کے ایک گاؤں میں آگ لگ گئی اور ایک بچہ ایک مکان میں پھنسا رہ گیا۔ کسی میں اس کو بچانے کی ہمت نہیں تھی کہ اسی دوران ڈی ایس پی راجیندر پرساد وہاں پہنچ گئے اور انہوں نے جان پر کھیل کر بچے کو بچایا۔
اس کے بعد گاؤں کے لوگوں نے پولیس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ پھر ایک دن اسی بچے کے والد نے پولیس کو یہ خبر دی کہ ’آج گبر ہائی وے سے گزرنے والا ہے۔‘
پولیس نے اس خبر پر ہائی وے پر گھات لگا کر انتظار کرنا شروع کر دیا اور جب گبر کا گروہ وہاں سے گزرا تو پولیس نے اس پر فائرنگ شروع کر دی۔ گبر کے گینگ نے بھی پولیس پر جوابی فائرنگ شروع کر دی۔ اسی دوران گبر پر دو گرنیڈ پھینکے جس کی زد میں گبر آ گیا۔
اس کے بعد آئی جی رستم جی نے اس کے قریب جا کر گبر کو گولیوں سے بھون دیا۔ اس حملے میں گبر سمیت نو ڈاکو مارے گئے باقی بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تاہم اسی دن گبر کے خوف کا خاتمہ ہو گیا۔
اور پھر دوسرے دن رستم جی نے یہ خبر انڈیا کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو ان کے جنم دن کے تحفے کے طور پر بھیجی۔