پاکستان کی نگراں حکومت کی جانب سے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کے الٹی میٹم بعد قانون نافذ کرنے والے محکموں کی کارروائیاں جاری ہیں۔
غیرقانونی طور پر مقیم باشندوں کی بے دخلی کے حوالے سے سب سے زیادہ ذکر افغان باشندوں کا ہو رہا ہے۔
اسلام آباد سمیت بعض دوسرے شہروں میں بھی افغان شہریوں کی جانچ پڑتال کا عمل جاری ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یکم نومبر کی ڈیڈ لائن صرف ان غیرملکیوں کے لیے جو یہاں غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔
مزید پڑھیں
-
پاسپورٹ کے اطلاق سے چمن کے لوگ کتنے متاثر ہوں گے؟Node ID: 801326
تاہم بعض حلقوں کی جانب سے حکومت کی اس پالیسی پر تنقید بھی کی جا رہی ہے۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سنیچر کو پشاور میں اپنی جماعت جمعیت علمائے اسلام (جی یو آئی۔ف) کے سوشل میڈیا کنونشن میں افغانوں کو بے دخل کرنے کے حکومتی اعلان پر سوالات اٹھائے ہیں۔
’یہ پشتونوں کے خلاف آپریشن ہے‘
مولانا فضل الرحمان نے الزام عائد کیا ہے کہ ’پولیس اور بیوروکریسی افغان پناہ گزینوں پر گِدھ کی طرح جھپٹ رہے ہیں۔ ان سے پیسے اور جائیدادیں چھین رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ غیرقانونی مقیم افراد کے خلاف آپریشن نہیں ہے۔ اس میں قانونی و غیرقانونی میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جا رہا۔ جن کے پاس کارڈز ہیں انہیں بھی تنگ کیا جا رہا ہے۔ یہ پشتونوں کے خلاف آپریشن ہے، کیا پاکستان میں مقیم غیرملکی صرف افغان ہیں۔‘
مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ آئیں اور دیکھیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے۔‘
پاکستان کی نگراں حکومت کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں کیا گیا جب افغانستان سے متصل سرحد پر اور صوبہ خیبر پختونخوا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان کے حکام افغان حکام سے متعدد بار یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ’وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔‘
دوسری جانب گذشتہ ہفتے پاکستان کے نگراں وزیر داخلہ نے اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ حالیہ عرصے میں پاکستان میں ہونے والے ’حملوں میں زیادہ تر افغان باشندوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔‘
سوال یہ ہے کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم افغان باشندوں کے انخلا کے عمل میں انسانی پہلو کا خیال رکھا جا رہا ہے یا نہیں اور یہ کہ اس کے ممکنہ طور پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نگراں حکومت نے یہ فیصلہ جلدی میں ردعمل کے طور پر کیا ہے جس پر عملدرآمد ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔
’ایسے فیصلے کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے‘
سینیئر تجزیہ کار زاہد حسین نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر کہا کہ ’یہ ردعمل کے طور پر بنائی گئی پالیسی ہے۔ اب کیسے ممکن ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم افغان تارکین وطن محض چند ہفتوں میں واپس چلے جائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ فیصلہ نگراں حکومت نے کیا ہے، سوال یہ ہے یہ پالیسی کس نے دی ہے؟ ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے حالات میں پولیس والوں کے مزے ہو جاتے ہیں۔ میرے خیال میں بغیر سوچے سمجھے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔‘
زاہد حسین نے مولانا فضل الرحمان نے تازہ بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’مولانا تو سیاست کر رہے ہیں۔ ان کی بات کو میں سنجیدہ نہیں لیتا تاہم یہ معاملہ کافی سیریس ہے۔‘
’آپ نے سالہا سال تک افغان شہریوں کو یہاں آنے کی کھلی اجازت دیے رکھی اور سرحدی راستوں پر بھی روک نہیں لگائی۔ اب ایک دم سے یہ سب کیسے ریورس ہو سکتا ہے۔ ایسے فیصلے پارلیمنٹ کیا کرتی ہے اور اس کے لیے جامع منصوبہ بندی ہوتی ہے لیکن یہاں ایسا کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی بچہ کسی ملک میں پیدا ہوا، پلا بڑھا تو اسے وہاں کی شہریت دی جاتی ہے لیکن یہاں کسی چیز کی کوئی لاجک نہیں ہوتی۔ افغانوں کو یہاں لاتے وقت بھی نہیں سوچا گیا اور اب بھی ویسا ہی کیا جا رہا ہے۔
زاہد حسین کا مزید کہنا تھا کہ یہ اہم ہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کی روک تھام کی جائے لیکن اس کی کسی مناسب اور قابلِ عمل طریقے سے منصوبہ بندی ہونی چاہیے۔
’مجھے آج ہی ایک تقریب میں ایک کینیڈین سفارت کار نے بتایا کہ جو افغان یہاں رجسٹرڈ ہیں اور ان کے پاس کارڈز بھی ہیں، انہیں بھی بیرونِ ملک جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔‘
’حکومت نے درست اعداد وشمار دیے ہی نہیں‘
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ ’ابھی تک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ حکومت نے پاکستان میں مقیم غیرقانونی تارکین وطن کا مکمل ڈیٹا دیا ہی نہیں۔ غیرقانونی طور پر مقیم افراد صرف افغان نہیں ہیں۔ اور بھی لوگ ہیں جو یہاں دہائیوں سے مقیم ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک تو حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے افراد کا ڈیٹا دے اور پھر جو بھی غیرقانونی طور پر رہ رہا ہے، اسے ایک ٹائم فریم دیا جائے۔‘
مظہر عباس کے مطابق ’افغان تارکین وطن کا معاملہ ذرا پیچیدہ ہے۔ ماضی میں بھی پاکستان میں بالخصوص بلوچستان، خیبر پختونخوا اور کراچی میں ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں افغان تارکین وطن ملوث رہے ہیں۔ یہ پکڑے جاتے تھے لیکن پھر انہیں ضمانت پر رہائی مل جایا کرتی تھی۔‘
’یہی وجہ ہے کہ اب لوگ آپریشن کے لفظ کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے۔ سنہ 1968 اور پھر 1992 میں جو آپریشنز ہوئے ان کے نتائج کے بعد یہ تاثر بنا کہ یہ کارروائیاں زیادہ مؤثر نہیں ہوتیں۔‘
اُن کے خیال میں ’آج تک پاکستان کی ریاست کی جانب سے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کے بارے میں کوئی مربوط پالیسی سامنے نہیں آئی۔ اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ یکم نومبر تک پانچ سے چھ لاکھ خاندانوں کو کیسے واپس بھیجا جا سکے گا۔ مجھے تو اس پر عملدرآمد کے 25 سے 30 فیصد تک کامیاب ہونے کی توقع ہے۔‘
’یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں موجود افغان تارکین وطن کے یہاں کی معیشت اور معاشرے پر بُرے اثرات پڑے ہیں۔ بلوچستان میں بھی مقامی پشتونوں اور تارکین وطن افغانوں میں تنازعات اور پھر بلوچوں اور ان تارکین وطن میں اختلافات ایک حقیقت ہے۔‘
انسانی حقوق کے سوال پر مظہر عباس نے کہا کہ ’یہ بھی انسانی حقوق کا معاملہ ہے اگر مقامی افراد یہ سمجھتے ہوں کہ غیرقانونی تارکین وطن ان کے وسائل پر قابض ہو رہے ہیں، اسے دیکھنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمان کو اس جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔‘
’فیصلے پر عمل درآمد میں پیچیدگیاں ہیں‘
پشاور میں مقیم افغان امور پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار عرفان اشرف کہتے ہیں کہ ’مسئلہ یہ ہے کہ ریاست اگر کوئی کام نیک نیتی سے بھی کرنا چاہے تو بھی اس پر عملدرآمد میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس وقت افغان تارکین وطن کے معاملے میں بھی یہی ہو رہا ہے۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’مہاجرین کے لیے لازم ہے کہ وہ جس ملک میں بھی جائیں تو وہاں قیام کے لیے ضروری دستاویزات حاصل کریں لیکن اس وقت جو آپریشن ہو رہا ہے اس میں رجسٹرڈ اور غیرقانونی میں فرق نہیں کیا جا رہا۔ میری معلومات کے مطابق خیبرپختونخوا کے جن علاقوں میں مقامی انتظامیہ نے اعلانات کیے اس میں انہوں نے بلاتفریق افغانوں کا نام لیا۔‘
’پالیسی ساز سیاسی افراد نہیں ہیں‘
عرفان اشرف کے مطابق ’پاکستان کی ریاست نے ماضی کی پالیسیوں کے تحت یہاں افغانوں کو بسایا بلکہ جنگوں میں انہیں استعمال کیا۔ ان اقدامات کے ساتھ کچھ مالی منفعتیں بھی جڑی ہوئی تھیں۔ اب ان جنگوں کے نتیجے میں بہت سے یتیم، بیوائیں اور اپاہج افراد بھی کمیپوں میں پڑے ہیں۔ انہیں ایک دم کیسے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔‘
’اس وقت اکثر افغان شہریوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اوپر جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں یہ سیاسی افراد نہیں ہیں اور ان کا کوئی سٹیک بھی نہیں ہے۔ اسی لیے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس فیصلے پر عملدرآمد کی بھی کوئی واضح سمت نہیں ہے۔‘
’یہ افراد غصہ بھی ساتھ لے کر جائیں گے‘
جہاں تک انسانی حقوق کی تنظیموں کی مداخلت کا سوال ہے تو عرفان اشرف سمجھتے ہیں کہ ’یہ ضروری ہے۔ اس وقت افغان سرزمین بھی محفوظ نہیں ہے۔ یہ تارکین وطن اگر واپس دھکیل دیے جاتے ہیں تو ان کے لیے وہاں بھی مسائل پیدا ہوں گے۔‘
’اتنے زیادہ افراد کو یوں اچانک بے دخل کیا جائے گا تو یہ ایک غصہ بھی ساتھ لے کر جائیں گے جس کے بعد وہ پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے ہاتھوں استعمال بھی ہو سکتے ہیں۔ کیوںکہ یہ 30 چالیس بعد واپس جا کر کچھ اور کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔‘
HRCP is appalled by reports from Islamabad that residents of Afghan origin are being evicted summarily from their homes and that settlements of Afghan refugees are being razed by the state. This is blatantly xenophobic and must cease. The government must understand that the…
— Human Rights Commission of Pakistan (@HRCP87) October 7, 2023