Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاسپورٹ کے اطلاق سے چمن کے لوگ کتنے متاثر ہوں گے؟

پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدل آمدروفت اور تجارت کے لیے طورخم اور چمن سب سے بڑی گزرگاہیں ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
76 سالوں میں پہلی بار بلوچستان کے ضلع چمن سے ملحقہ پاکستان افغان سرحد پر آمدورفت کو مکمل دستاویزی بنانے اور ویزا اور پاسپورٹ لازمی  قرار دیے جانے کے اعلان کے بعد پاکستانی حکام کو خدشہ ہے کہ اس فیصلے کا سب سے زیادہ ردعمل بلوچستان کے سرحدی شہر چمن اور اس سے ملحقہ سرحد پر سامنے آ سکتا ہے۔
سرحد پر کشیدگی کے پیش نظر پاکستانی سرحدی فورسز کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔
روزانہ شناختی کارڈ کی بنیاد پر سرحد پار کرکے تجارت اور مزدوری کے لیے افغانستان جانے والے ہزاروں پاکستانی تاجروں اور مزدوروں کو بھی کاروبار اور روزگار متاثر ہونے کی تشویش لاحق ہو گئی ہے۔
پاکستان کے نگراں وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے گزشتہ دنوں اعلان کیا تھا کہ یکم نومبر سے پڑوسی ملک افغانستان کے تمام شہریوں کو دوسرے ممالک کے مسافروں کی طرح صرف پاسپورٹ اور ویزا پر ہی پاکستان میں داخلے کی اجازت ہو گی۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان پیدل آمدروفت اور تجارت کے لیے طورخم اور چمن سب سے بڑی گزرگاہیں ہیں۔ طورخم سرحد پر 2016 میں آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزا لازمی قرار دے دیا گیا تھا تاہم متعدد کوششوں کے باوجود پاکستانی حکومت چمن سرحد پر پاسپورٹ اور ویزے کے اطلاق کو یقینی نہیں بنا سکی۔
تجزیہ کار سلیم شاہد کے مطابق قیام پاکستان کے بعد بلوچستان کے ضلع چمن سے ملحقہ پاکستان افغان سرحد پر آمدروفت کے لیے ’ون ڈاکومنٹ رجیم‘ یعنی صرف مستند ویزے اور پاسپورٹ کی  پالیسی لاگو ہونے کا یہ پہلا موقع ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’انگریز دور میں راہداری پر سفر کی اجازت دی جاتی تھی جو متعلقہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر کا دفتر دیتا تھا۔ اس کے بعد پاکستانی یا افغانی شناختی کارڈ یا پھر بغیر دستاویزات کے ہی آمدروفت ہوتی آ رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ پاسپورٹ اور ویزا کی نئی شرط علاج، کاروبار، روزگار اور پناہ کی تلاش میں پاکستان آنے والے افغان باشندوں بالخصوص بلوچستان سے ملحقہ افغانستان کے پشتون اکثریتی جنوبی صوبے قندھار کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی شہر چمن کے باشندوں اور سرحد پر آباد منقسم قبائل کو متاثر کرے گی۔

ایف آئی اے کے مطابق روزانہ 12 سے 15 ہزار افراد پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر چمن سرحد عبور کرتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس وقت افغان صوبہ قندھار کے رہائشیوں کو افغان شناختی دستاویز ’تذکرہ‘ پر چمن سرحد سے پاکستان میں اور شناختی کارڈ پر چمن کا پتہ رکھنے والے پاکستانی باشندوں کو افغانستان آنے جانے کی اجازت حاصل ہے۔
ایف آئی اے کے اعدادوشمار کے مطابق روزانہ 12 سے 15 ہزار افراد پاسپورٹ اور ویزے کے بغیر یہ سرحد عبور کرتے ہیں۔ ان میں نصف پاکستانی اور نصف افغان باشندے ہوتے ہیں۔
چمن کے صحافی اختر گلفام کے مطابق چمن سے تعلق رکھنے والے تقریباً سات ہزار پاکستانی باشندوں کی افغانستان کے سرحدی ضلع سپین بولدک میں دکانیں، موٹر شوروم اور گودام ہیں یا وہاں کوئی  نہ کوئی کاروبار کر رہے ہیں۔ یہ لوگ روزانہ صبح افغانستان جاتے اور شام کو پانچ بجے سرحد بند ہونے سے پہلے پہلے واپس پاکستان آجاتے ہیں۔
اسی طرح چمن سرحد پر پاکستانی حکام نے مقامی باشندوں کو باب دوستی دروازے پر چھوٹے پیمانے پر تجارتی سامان کی سمگلنگ کی اجازت دے رکھی ہے۔ سامان کی ترسیل کرنے والے ان افراد کو مقامی طور پر ’لغڑی‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے لیے سرحد پر آزادانہ طور پر آنے جانے کے لیے صرف پاکستانی شناختی کارڈ پر چمن کا پتہ درج ہونے کی شرط ہے۔
اختر گلفام کے مطابق سرحد پر آمدروفت کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی شرط عائد ہونے کی وجہ سے یہ دو طبقات سب سے زیادہ متاثر ہوں گے اور کم از کم دس سے 12 ہزار خاندان بے روزگار ہو جائیں گے۔
اس طرح حکومت کی نئی پالیسی سے پاکستان میں سب سے زیادہ چمن کے لوگ متاثر ہوں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر پاکستانی حکومت ان پاکستانی باشندوں کو شناختی کارڈ پر آمدروفت کی اجازت پر کوئی قدغن نہ بھی لگائے تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ افغان سرحدی علاقوں کے باشندوں کو رعایت نہ دینے کے رد عمل میں افغان طالبان چمن کے تاجروں اور مزدوروں کو بھی افغانستان کے ویزے کے بغیر داخل نہیں ہونے دیں گے۔‘

سرحد پر آمدروفت کے لیے نئی شرائط لاگو ہونے کے بعد پاکستانی حکام کو توقع ہے کہ دہشتگردی اور سمگلنگ میں کمی آئے گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

لغڑی اتحاد کے رہنماء غوث اللہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ روزانہ پانچ سے چھ ہزار لغڑی سامان چمن سے بولدک یا بولدک سے چمن پہنچانے کا کام کرتے ہیں اور ایک سے دو ہزار روپے ہزار روپے تک کما کر اپنے خاندانوں کی کفالت کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس وقت تو شناختی کارڈ پر چمن کا پتہ ہونے کی وجہ سے آنے جانے کی اجازت ہے۔ نہیں معلوم کہ نئی پالیسی لاگو ہونے کے بعد کیا ہو گا۔ اگر شناختی کارڈ پر آمدروفت بند کر دی گئی تو یہ ہزاروں  خاندان بے روزگار ہوجائیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چمن میں نہ زراعت ہیں اور نہ کارخانے۔ سرحد پر انحصار کرنے والے مزدوروں کو یک دم بے روزگار کیا گیا تو اس کے بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ہم اس کے خلاف خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ احتجاج کریں گے اور دھرنے دیں گے۔‘
غوث اللہ کے بقول نئی پالیسی کے اطلاق سے قبل ہی سرحد پر بہت سختی کر دی گئی ہے۔ سامان لانے لے جانے پر کبھی کبھی کئی کئی روز تک پابندی لگا دی جاتی ہے۔ پہلے کی نسبت اب 20 فیصد بھی کام نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے لوگ روزانہ صبح جاتے اور شام کو واپس آتے تھے اب سختیوں کی وجہ سے چمن کے لوگوں نے روزانہ آنا جانا چھوڑ دیا ہے اور وہیں افغان شہر سپین بولدک میں کمرے اور مکانات کرایے پر لے لیے ہیں اور ہفتہ یا مہینے میں ایک بار چمن اپنے گھر آتے ہیں۔‘
چمن چیمبر آف کامرس کے صدر اور پاک افغان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے سابق عہدے دار عمران کاکڑ کہتے ہیں کہ ’پاکستانی حکومت پڑوسی ملک افغانستان سے متعلق اس نئی امیگریشن پالیسی کے نتیجے میں عسکریت پسندوں، جرائم پیشہ افراد کی آمدروفت اور سمگلنگ کے تدارک کے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے تو یہ اچھی بات ہے  مگر 70 سالوں سے رائج روایت اور پالیسی کو مرحلہ وار کی بجائے یک دم  تبدیل کرنے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے  اور سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کے لیے بڑی مشکلات پیدا ہوں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پاسپورٹ اور ویزے کا اطلاق کرنے سے پہلے دونوں ممالک کو ملٹی پل ویزا کے اجراء کو آسان بنانا چاہیے۔ سرحد پر تجارت اور روزگار کرنے والے اسی طرح سرحد پار رشتہ رکھنے والے سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کے لیے خصوصی رعایت دینے کی ضرورت ہے۔‘
عمران کاکڑ نے کہا کہ اگر تاجروں اور سرحدی علاقوں کے رہائشیوں کے لیے ویزے کا حصول آسان ہوجائے اور اس پر روزانہ آنے جانے کی اجازت دی جائے تو نئی پالیسی کے مثبت اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔

نئی شرائط سے تجارت کے متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

یاد رہے کہ 2022 کے اوائل میں پاکستانی حکومت نے چمن سرحد پر سفری دستاویزات کے بغیر سفر کرنے والے پاکستانی اور افغان شہریوں کا ریکارڈ مرتب کرنے کے لیے انٹیلی جنس ویری فیکشن ایکسس سسٹم (آئی وی اے ایس) بھی نصب کیا تھا جس کا مقصد افغان باشندوں کا ریکارڈ مرتب کرکے ان کے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات تک رسائی کو روکنا تھا۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر سے زائد طویل سرحد پر باڑ لگائے جانے کے باوجود پاکستانی حکومت سمجھتی ہے کہ سرحد پر آمدروفت دستاویزی نہ ہونے کی وجہ سے افغانستان سے بڑی تعداد میں غیر قانونی پناہ گزین اور ان کی آڑ میں عسکریت پسند اور جرائم پیشہ عناصر آسانی سے پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں۔
وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان میں ہونے والے گزشتہ 24 خودکش حملوں میں 14 میں افغان باشندے ملوث تھے۔
سرحد پر آمدروفت کے لیے نئی شرائط لاگو ہونے کے بعد پاکستانی سکیورٹی حکام کو توقع ہے کہ دہشتگردی، جرائم اور سمگلنگ میں کمی آئے گی۔
بارڈر پر تعینات ایک سکیورٹی افسر نے میڈیا سے بات کرنے کا مجاز نہ ہونے کی صورت میں نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ ’نئی پالیسی پر عملدرآمد کرنے کے لیے بارڈر پر تعینات پاکستانی سکیورٹی فورسز نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ پولیس، لیویز اور سپیشل برانچ جیسے سویلین سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی سرحد ی دروازے تک رسائی روک دی گئی ہے اور تمام انتظامات ایف سی، پاک فوج اور حساس اداروں کے اہلکار خود دیکھ رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چمن سرحد پر آمدروفت سے متعلق نئی پالیسی کے فوری اطلاق کے نتیجے میں افغان حکومت کے اسی طرح نئی شرائط سے معاشی اور سماجی طور پر متاثر ہونے والے چمن کے تاجروں اور مزدوروں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔
افغان حکومت نے پاکستان میں افغان مہاجرین کے ساتھ سلوک کو ناقابل قبول قرار دیا۔

افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے دو ماہ بعد ہی طالبان نے تین بار سرحد بند کر دی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

چمن کی ضلعی انتظامیہ کے ایک سینیئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ افغان حکومت کے سخت رد عمل کے نتیجے میں سرحد پر تناؤ اور کشیدگی میں اضافے کا خدشہ موجود ہے۔  
ان کے بقول بدھ کو سرحدی دروازے (باب دوستی ) پر فائرنگ کا واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے جس میں افغان سکیورٹی اہلکار کی فائرنگ سے دو پاکستانی باشندوں کی ہلاکت اور ایک ایف سی اہلکار سمیت دو افراد زخمی ہو گئے تھے۔
ضلعی افسر کا کہنا تھا کہ افغانستان کی جانب سے کسی بھی منفی رد عمل کا جواب دینے کے لیے پاکستانی سکیورٹی فورسز کو الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
پاکستانی فوج  نے بدھ کو ہونے والے فائرنگ کے واقعہ کو غیر ذمہ دارانہ اور لاپرواہی قرار دیا اور افغان حکام سے مجرم پکڑ کر پاکستانی حکام کے حوالے کرنے کا کہا۔
خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن سرحد پر پہلی بار مئی 2017 کی مردم شماری کے دوران جنگی صورتحال پیدا ہوئی۔ کئی روز تک جاری رہنے والی ان جھڑپوں میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان جھڑپوں کے بعد پاکستان نے پہلی بار چمن سرحد پر توپ خانے نصب کیا جو اس وقت بھی الرٹ ہے۔
15 اگست کو 2021 میں افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے دو ماہ بعد ہی سرحد پر آمدروفت کے لیے شرائط سخت کرنے پر طالبان نے تین بار سرحد بند کر دی تھی۔ اس کے بعد فروری 2022 اور پھر دسمبر 2022 میں تین مرتبہ چمن سرحد پر پاکستانی اور افغان طالبان کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ دسمبر میں ہونے والی ایک جھڑپ میں کم از کم چھ افراد ہلاک اور 17 زخمی ہوئے تھے اور کئی روز تک سرحد بند رہی تھی۔

شیئر: