Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مقامی شہریوں سے زیادہ محنتی‘، پاکستان میں وہ کاروبار جو افغانوں کے زیرِاثر ہیں

سرحد چیمبر آف کامرس کے صدر فواد اسحاق کا دعویٰ ہے کہ افغان تاجروں کو پاکستان میں زیادہ فوائد حاصل ہو رہے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی نگران حکومت نے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو اپنے وطن واپس جانے کے لیے یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی ہے اور کہا ہے کہ اس کے بعد نہ صرف یہ کہ غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کر لیا جائے گا بلکہ ان کی پاکستان میں موجود جائیدادیں، کاروبار اور دولت بھی ضبط کر لی جائے گی۔ 
اگرچہ یہ انتباہ تمام غیرقانونی تارکین وطن کو کیا گیا ہے لیکن پاکستان میں افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہونے کی وجہ سے خیال کیا جا رہا ہے کہ اس کے پیچھے اصل مقصد افغان شہریوں کی بے دخلی ہے کیونکہ پاکستانی حکام کا ماننا ہے کہ ملک میں بدامنی اور بدحالی کی بڑی وجہ افغانستان سے غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے والے لوگ ہیں۔ 
پاکستان میں عمومی طور پر یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہاں کے مالی مسائل کی وجہ افغان شہریوں کا بوجھ بھی ہے اور کچھ حلقے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ افغان شہریوں کی کئی کاروباری شعبوں پر اجارہ داری ہے اور وہ سمگلنگ اور مہنگائی کا باعث بنتے ہیں۔  
محمد حسنین جاوید پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کی ایک مصروف کاروباری شخصیت ہیں جو اپنے کام کے سلسلے میں افغانستان کے کئی شہریوں سے رابطے میں رہتے ہیں اور ان میں سے متعدد کے ساتھ ان کی دوستی ہے۔ 
وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ٹشو پیپر بنانے کی دوسری بڑی فیکٹری ایک افغان شہری کی ہے جو نہ صرف یہاں بڑے پیمانے پر کاروبار کر رہے ہیں بلکہ کئی قیمتی عمارتوں اور جائیدادوں کی ملکیت بھی رکھتے ہیں۔  
حسنین جاوید کے مطابق پاکستان سے سنگ مرمر اور چمڑے کی سب سے زیادہ برآمد افغانستان کے شہری کرتے ہیں اور اس میں پاکستانیوں کا حصہ ان کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ 
’اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ، نان کسٹم پیڈ گاڑیوں، گاڑیوں کے پرزہ جات، کپڑے، کوئلہ اور سکریپ کی خرید و فروخت جیسے کاروباروں میں بھی افغان شہریوں کا 80 فیصد کردار ہے۔‘  

’پاکستان کے ہر کاروبار، ہر شہر میں افغان شہریوں کا حصہ‘ 

حسنین جاوید کے مطابق پشاور کے علاوہ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں افغان شہری کسی نہ کسی طریقے سے کاروبار، تجارت اور صنعتوں کا حصہ ہیں۔ جن میں کوہاٹ، نوشہرہ، درہ آدم خیل کا علاقہ، قبائلی اضلاع اور بلوچستان کے سرحدی اضلاع بھی شامل ہیں۔
’افغان شہری پشاور میں 40 فیصد جائیدادوں کے کسی نہ کسی طور مالک ہیں، کراچی کی کئی بڑی مارکیٹوں اور کاروباری مراکز میں ان کا بڑا حصہ ہے، راولپنڈی کی باڑہ مارکیٹ کا ایک بڑا حصہ بھی ان کے پاس ہے۔ اور ملک کے دوسرے شہروں میں بھی یہ کسی نہ کسی حد تک کاروبار اور جائیدادوں کے مالک ہیں۔‘ 

کاروباری شخصیت حسنین جاوید کے مطابق پاکستان سے سنگ مرمر اور چمڑے کی سب سے زیادہ برآمد افغانستان کے شہری کرتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر فواد اسحاق بھی حسنین جاوید کی باتوں تصدیق کرتے ہیں۔   
وہ کہتے ہیں کہ ’آپ پاکستان میں کسی کاروبار کا نام لیں، اس میں افغان شہریوں کا حصہ ضرور ہو گا۔‘ 
’چاہے وہ کاروبار کپڑے کا ہے جوتوں کا، گاڑیوں کا، چائے کا، سبزی، فروٹ اور یا پھر ڈرائی فروٹ کا۔ روٹی لگانے کے تندوروں اور ریستورانوں کے علاوہ سمال اینڈ میڈیم انڈسٹری، آٹے، آئس کریم، برف کی فیکٹریوں تقریباً ہر شعبے میں یہ شامل ہیں۔‘ 
فواد اسحاق کے مطابق ’اس وقت پشاور میں زیرتعمیر ایک بڑے بزنس سینٹر کے مالک ایک افغان شہری ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں اتنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں کہ کئی قومی پالیسیوں میں بھی ان کی مشاورت شامل ہوتی ہے۔‘ 
اُن کا کہنا تھا کہ ’افغان شہری پاکستان میں بہت بڑی جائیدادوں کے مالک ہیں۔ انہوں نے اپنے مقامی شراکت داروں کے ذریعے ان کے نام پر کئی کئی گھر لیے ہوئے ہیں، اور ہر اس شہر میں لیے ہوئے ہیں جہاں ان کا کاروبار ہے۔‘ 

’افغان تاجروں کو پاکستانیوں سے زیادہ رسائی‘ 

فواد اسحاق کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں  کی نسبت افغان تاجروں کو پاکستان میں زیادہ فوائد حاصل ہو رہے ہیں کیونکہ انہیں دونوں ممالک میں مکمل رسائی حاصل ہے جبکہ پاکستانی کاروباری طبقے کو یہ سہولت میسر نہیں۔ 
’ہم أفغان شہریوں کے پاکستان میں کاروبار یا تجارت کے خلاف نہیں بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ یہ قانونی طریقے سے کریں۔ جیسے ہم ٹیکس دے رہے ہیں، وہ بھی دیں۔ وہ اپنے ملک واپس جائیں اور پھر اگر وہ یہاں کاروبار کے لیے آنا چاہتے ہیں تو پاسپورٹ اور ویزے پر آئیں۔‘ 

پاکستان کی افغانستان کے ساتھ دو ہزار کلومیٹر سے زیادہ طویل سرحد ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

’افغان شہریوں کا رہن سہن اب پاکستانیوں جیسا ہے‘ 

پاکستان کے قبائلی ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی سجاد ترکزئی گذشتہ تین دہائیوں سے افغان امور پر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ 
 وہ بین الااقوامی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے تجزیہ کار کے طور پر کابل اور افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں محو سفر رہتے ہیں اور دونوں ممالک کے شہریوں کے معمولات کا گہرا مشاہدہ رکھتے ہیں۔ 
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’چالیس برس میں پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی دو نسلیں یہاں پر جوان ہوئی ہیں۔ ہزاروں کے حساب سے خاندان یہیں پر پیدا ہوئے اور اس کے بعد وہ وطن واپس نہیں گئے۔ انہوں نے یہیں تعلیم حاصل کی اور یہیں کاروبار کرتے ہیں۔ان کا رہن سہن، لباس اور طرز زندگی اب پاکستانیوں سے ملتا جلتا ہے۔‘ 
’ان افغان مہاجرین کو 40 سال سے یہ سہولت حاصل رہی ہے کہ وہ بغیر پاسپورٹ اور ویزے کے صوبہ بلوچستان، خیبر پختونخوا، یہاں تک کے کراچی کے علاقوں تک رسائی حاصل کریں اور مختلف کاروبار کریں۔‘ 

’افغان شہری کشمیر تک پہنچ چکے ہیں‘ 

’ٹرانسپورٹ کا کاروبار، ہوٹل انڈسٹری، ریسٹورانٹس، ٹرانزٹ ٹریڈ، قالین بانی، چمڑے کی مصنوعات میں یہ لوگ بہت زیادہ کامیاب ہیں۔‘ 

سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر فواد اسحاق کہتے ہیں کہ افغان شہریوں کے کاروبار کو قانونی بنایا جائے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سجاد ترکزئی نے کہا کہ ماضی میں پاکستانی ریاست کی جانب سے افغان مہاجرین پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی کیونکہ اس وقت یہ ریاستی پالیسی تھی جس کی وجہ سے یہ لوگ مہاجر کیمپوں سے نکل کر مقامی سماج میں گھل مل گیے، یہاں تک کہ کشمیر تک پہنچ گیے۔  

’تارکین وطن مقامی شہریوں سے زیادہ محنتی ہوتے ہیں‘ 

تاہم پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولیپمنٹ اکنامکس (پائیڈ ) کے وائس چانسلر  ڈاکٹر ندیم الحق سمجھتے ہیں کہ سمگلنگ میں افغان شہریوں کا کردار ضرور ہے لیکن کاروبار میں ان کے حصے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے اور ایسا نہیں کہ انہوں نے پاکستانی کاروباری طبقے کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور خود کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ 
‘ایسا ہوتا ہے کہ دوسرے ملکوں سے آنے والے باشندے مقامی لوگوں سے زیادہ محنت کرتے ہیں اور کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ بہت سارے پاکستانی امریکہ میں بہت زیادہ کامیاب ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مقامی معیشت کو کنٹرول کرنا شروع کر دیتے ہیں۔‘ 

کیا افغان مہاجرین واپس چلے جائیں گے؟ 

سجاد ترکزئی سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا فیصلہ بہت تاخیر سے کیا ہے اور اب بھی اس کی کامیابی کے امکانات ملے جلے ہیں۔ 
ان کے مطابق ماضی میں اس نوعیت کے کئی فیصلوں کو واپس لیا جا چکا ہے اور اس مرتبہ اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے پاکستانی حکام کو سنجیدہ عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ 

پاکستان میں افغان شہری مختلف کاروباروں سے وابستہ ہیں۔ فائل فوٹو: روئٹرز

حسنین جاوید کے خیال میں تمام افغان شہریوں کو واپس بھیجنا ممکن نہیں ہے۔ 
’آپ ان کو نہیں نکال نہیں سکتے، چند افغان بھکاریوں کو کچھ روز کے لیے واپس بھیج دیں تو الگ بات ہے لیکن جو لوگ یہاں پر باقاعدہ آباد ہو گئے ہیں ان کو نکالنا تقریبا ناممکن ہے۔‘
’ان کی یہاں دوستیاں ہیں، رشتہ داریاں ہیں اور انہوں نے یہاں شادیاں کی ہوئی ہیں۔ سب سے بڑھ کر ہمارا سسٹم کرپٹ ہے جو ان لوگوں کو تحفظ دیتا ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے تک لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے کے عوض نادرا کے لوگ أفغان شہریوں کے پاکستانی قومیت کے فیملی ٹری بنا رہے تھے۔‘ 
لیکن فواد اسحاق کے مطابق پاکستان کا نظام درست کرنے کے لیے اب یہ ازحد ضروری ہے کہ تمام غیر قانونی تارکین کو واپس بھیجا جائے۔ اور پاکستانی ریاست اس بارے میں سنجیدہ حکمت عملی اختیار کرے۔

شیئر: