Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنرل فیض کی چائے سے مہاجرین کی ملک بدری تک، پاکستان کی افغان پالیسی بدل رہی ہے؟

ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ ’افغان مہاجرین سے متعلق پاکستان کی قومی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
یہ 15 اگست 2021 کا دن تھا جب افغان طالبان ’بجلی کی رفتار‘ سے کابل میں داخل ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے کابل کا کنٹرول حاصل کر لیا جس کے دوران دو دہائیوں سے مغربی ممالک کی مدد سے کھڑی کی گئی افغان نیشنل آرمی بوسیدہ عمارت کی طرح ڈھے گئی۔  
طالبان کے کابل پر اتنی آسانی سے کنٹرول اور اشرف غنی حکومت کے غائب ہونے کے مناظر پوری دنیا کی ٹی وی سکرینوں پر دیکھے گئے۔
پاکستان میں افغان طالبان کی واپسی کو ایک ’بڑی فتح‘ کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ جہاں عسکری اور مذہبی حلقے امریکہ کی ہار پر شاداں تھے وہیں سیاسی قیادت بھی پیچھے نہیں رہی تھی۔ 17 اگست 2021 کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ایک خطاب میں کہا کہ ’افغانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دیں۔‘
عمران خان کے اس بیان کا مغربی پریس میں کافی چرچا رہا اور بعد میں وہ اس حوالے سے وضاحتیں بھی دیتے رہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستانی وزیراعظم کے اس بیان کو واشنگٹن میں اچھے انداز میں نہیں لیا گیا۔
طالبان کے افغانستان پر قبضے کے اگلے روز 16 اگست 2021 کو مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے ایکس (ٹوئٹر) اکاؤنٹ سے روسی ادیب لیو ٹالسٹائی کی تصویر کے ساتھ ان کا قول ’دو طاقتور ترین جنگجو صبر اور وقت ہیں‘ شیئر کیا اور لکھا کہ ’یہ بات ایک بار پھر افغانستان میں ثابت ہو گئی۔‘
اس سے اگلے مہینے چار ستمبر کو اُس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید نے نہ صرف افغانستان کا دورہ کیا بلکہ کابل کے سیرینا ہوٹل میں چائے پیتے بھی نظر آئے۔
پاکستان نژاد امریکی سکالر حسن عباس نے اپنی کتاب The Return of the Taliban: Afghanistan after the Americans Left  میں لکھا کہ جنرل فیض حمید نے سیرینا ہوٹل میں صحافیوں سے مختصر گفتگو میں کہا کہ ’پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’فیض حمید کی سیرینا ہوٹل میں چائے کی چسکیاں لیتی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہو گئیں۔ مبصرین کے لیے یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ پاکستان کا طالبان پر بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے۔‘
حسن عباس کے مطابق افغانستان کی عبوری حکومت کی تشکیل میں جنرل فیض حمید نے اہم کردار ادا کیا۔

 رستم شاہ مہمند نے حکومت کے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کونکالنے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تاہم افغانستان میں پاکستان کے سفیر رہنے والے رستم شاہ مہمند اس بات کو درست نہیں مانتے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان ایک خودمختار ملک ہے اور افغان اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ 
وہ پاکستان کے افغان طالبان پر اثر و رسوخ کی بات کو بھی تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ’اس وقت کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ جنرل مشرف نے امریکہ کے ساتھ مل کر طالبان کی حکومت ختم کی تھی، ان کے رہنماؤں کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ وہ یہ بات نہیں بھولے اور ان کے گلے شکوے آج بھی موجود ہیں۔‘
پاکستانی حکام کا خیال تھا کہ افغاستان میں طالبان کی واپسی کے بعد اب پاکستان تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) پر گرفت کے ساتھ ساتھ ملک کی مغربی سرحد کافی محفوظ ہو جائے گی اور دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔
لیکن صرف دو سال میں اسلام آباد کے یہ سارے خواب نہ صرف چکنا چور ہو گئے بلکہ کابل کو مسلسل تنبیہہ بھی کام نہ آئی۔ 
ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے مطابق ستمبر 2021 سے دسمبر 2021 تک پاکستان میں کل 94 دہشت گردانہ حملے ہوئے۔ مرنے والوں میں 48 شہری اور 100 سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔
2022 میں دہشت گردی کے 365 واقعات میں 229 شہری اور 379 سکیورٹی اہلکار لقمہ اجل بنے جبکہ رواں برس دو اکتوبر تک پاکستان میں 364 حملے ہو چکے ہیں جن میں 276 شہری اور 414 سکیورٹی اہلکار جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ 
حکومت پاکستان نے افغانستان کو کئی مرتبہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے کارروائی اور ان دہشت گردانہ حملوں کو روکنے کے لیے کہا ہے لیکن افغانستان کی جانب سے کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی۔
تاہم اب گذشتہ مہینے 29 ستمبر کو 12 ربیع الاول کے موقع پر مستونگ اور ہنگو میں خودکش حملوں کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں تناؤ بڑھتا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کے نگراں وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے اسلام آباد میں اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ملک چھوڑنے کے لیے یکم نومبر کی ڈیڈ لائن بھی دے دی ہے۔

اسماعیل خان نے کہا کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں پاکستان سے درخواست کرتی تھیں کہ وہ افغان مہاجرین کو واپس نہ بھیجیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان کی افغان پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی آ رہی ہے اور افغانستان کے حوالے سے ’سٹریٹجک ڈیپتھ‘ کی پالیسی بالآخر ناکام ثابت ہوئی ہے؟
کیا پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو نکالنا ممکن ہو سکے گا؟

طالبان نے بھی پاکستان کو استعمال کیا‘

افغان امور پر گہری نگاہ رکھنے والے سینیئر صحافی اور پشاور میں انگریزی اخبار ڈان کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر اسماعیل خان نے حکومتی اعلان کے حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔
’16 دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد بننے والے نیشنل ایکشن پلان کے نکات میں بھی یہ بات شامل تھی کہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو واپس بھیجا جائے گا۔ لیکن اس حوالے سے کوئی کام نہیں ہوا۔‘
ان کے مطابق 2017 میں ایک بار یہی فیصلہ کیا گیا اور اس حوالے سے کام بھی ہوا اور سٹریٹجک پیپر بھی تیار کیا گیا لیکن پھر بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے کام رک گیا۔
’اس کے علاوہ اس کام کے لیے وسائل درکار ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو گرفتار کیسے کریں گے اور رکھیں گے کہاں؟‘
اسماعیل خان نے کہا کہ حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتیں پاکستان سے درخواست کرتی تھیں کہ وہ افغان مہاجرین کو واپس نہ بھیجیں کیونکہ ان کے پاس وسائل نہیں جبکہ طالبان حکومت کی جانب سے ابھی تک ایسی کوئی درخواست نہیں آئی۔ 
پاکستان کی افغان پالیسی کے حوالے سے اسماعیل خان کا کہنا تھا کہ ’ان سے فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوا ہے۔ آپ اشرف غنی کے آخری چھ مہینے دیکھ لیں اور طالبان کی واپسی کے بعد کے مہینے دیکھیں، ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے۔‘
اس سوال پر کہ کیا پاکستان کی افغان پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی آ رہی ہے، انہوں نے کہا کہ ابھی کیا ہو گا یہ بتانا مشکل ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایک بات تو واضح ہے کہ اب ٹی ٹی پی سے بات نہیں کرنی اور افغانستان کی طرف سے بھی صرف باتیں ہی ہیں عملی طور پر کچھ نہیں ہے۔

بریگیڈیئر سعد نے پاکستان کی افغان پالیسی کو ’حد درجہ ناقص‘ قرار دیتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس سوال پر کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) فیض حمید کی کابل کے سیرینا ہوٹل میں چائے پاکستان کو مہنگی نہیں پڑی؟ اسماعیل خان کا کہنا تھا کہ ’جنرل فیض کی پالیسی بہت مہنگی پڑی۔ یہ ایک آدمی کی پالیسی تھی اور انہوں نے کامیابی سے اسے جی ایچ کیو کو سِیل کیا۔ صرف ہم نے ہی نہیں طالبان نے بھی ہمیں استعمال کیا ہے۔‘

افغانستان کو انڈین تناظر میں دیکھنا چھوڑ دیں

افغانستان میں پاکستان کے سابق دفاعی اتاشی بریگیڈیئر سعد کے مطابق حکومت کا غیرقانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیرملکیوں کو نکالنے کا فیصلہ ٹھیک ہے۔ ’جو بھی یہاں آتے ہیں ان کے پاس کاغذات تو ہونے چاہیے۔‘ 
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا پہلے بھی ایسا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن ہم کمزوری دکھاتے ہیں اور بعد میں مسئلہ بن جاتا ہے۔ 
’حکومتی فیصلہ تو ٹھیک ہے پر اس کے دورانیے اور طریقہ کار کی سمجھ نہیں آئی۔ امید کرتا ہوں کہ اس حوالے سے کوئی کام کیا ہو گا۔ میں ہوتا تو اس کا ٹائم فریم بڑھاتا اور فیز بائے فیز کرتا۔‘
بریگیڈیئر سعد نے پاکستان کی افغان پالیسی کو ’حد درجہ ناقص‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہماری خام خیالی ہے کہ وہاں پاکستان زندہ باد اور انڈیا مردہ باد کے نعرے لگیں گے۔ پہلے اپنا فائدہ دیکھیں اور افغانستان کو انڈیا کے تناظر میں دیکھنا چھوڑ دیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بارے میں افغان طالبان کی پالیسی یہی رہے گی۔ بہتر یہ تھا کہ ہم اشرف غنی سے معاملات طے کرتے۔
بریگیڈیئر سعد نے جنرل (ر) فیض حمید کی افغان پالیسی کے حوالے سے کہا کہ ’اگر انہیں سمجھ ہوتی تو وہ یہ پالیسی اختیار نہ کرتے لیکن سمجھ تو ان سے پچھلے والوں کو بھی نہیں تھی۔‘

ہم دشمنی کے بیچ بو رہے ہیں

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند نے حکومت کے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو پاکستان سے نکالنے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ یہاں غیرقانونی طور پر نہیں رہ رہے بلکہ اسائلم کے درخواست گزار ہیں اور بین الاقوامی قانون کے تحت آپ انہیں ان کی مرضی کے بغیر ڈی پورٹ نہیں کر سکتے۔ ان کی رجسٹریشن کا نہ ہونا ہمارا قصور ہے۔ انہوں نے کب رجسٹریشن سے انکار کیا ہے۔

طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد اس وقت کے ڈی جی آئی آیس آئی جنرل فیض حمید کی کابل میں چائے پیتے ہوئے تصویر وائرل ہوئی تھی۔ (فوٹو: سکرین گریب)

باقی سمگلنگ میں وہ لوگ ملوث ہیں جو دونوں ملکوں کی سرحدوں سے آتے جاتے رہتے ہیں اور دہشت گردی میں بھی وہ افغان شامل ہیں جن کا تعلق داعش اور ٹی ٹی پی سے ہے۔‘

افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان کی قومی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں: ترجمان دفتر خارجہ

اس حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ ’افغان مہاجرین سے متعلق پاکستان کی قومی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘
جمعرات کو ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ’معاشی چیلنجز اور وسائل کی کمی کے باوجود ہم کُشادہ دِلی کے ساتھ 14 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت پاکستان کے حالیہ فیصلے کا ہدف افغان مہاجرین نہیں بلکہ ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم تارکین ہیں۔‘
رستم شاہ مہمند نے سوال اٹھایا کہ کیا افغان حکومت کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ ان لاکھوں افراد کی دیکھ بھال کر سکے گی۔ 
اُن کے مطابق اس فیصلے پر عمل درآمد کی صورت میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان دشمنی کے ایسے بیچ بوئے جائیں گے جو نسلوں تک چلے گی۔

حسن عباس کے مطابق افغانستان کی عبوری حکومت کی تشکیل میں جنرل فیض حمید نے اہم کردار ادا کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’ہماری مغربی سرحد اور یہ خطہ عدم استحکام کا شکار ہو جائیں گے۔ انڈیا، ایران اور دوسری طاقتیں اس کا فائدہ اٹھائیں گی۔‘
پاکستان کی افغان پالیسی کے حوالے سے سابق سفیر کا کہنا تھا کہ ’ہم ہمیشہ وہاں اپنے پسندیدہ افراد تلاش کرے رہے ہیں جبکہ ہمیں افغانستان میں سرمایہ کاری کرنی چاہے تھی۔ اسی لیے وہاں آج پاکستان کے لیے مخاصمت پائی جاتی ہے۔‘
انہوں نے نگراں حکومت کے مینڈیٹ پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’یہ نگران حکومت ہے اور وہ ایسے فیصلے کیسے کر سکتی ہے جس سے اس خطے کے حالات بدل جائیں گے، یہ منتخب حکومت کا حق ہے۔‘
اس سوال پر کہ طالبان کے دوبارہ سے برسراقتدار آنے کے بعد سے پاکستان پر ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے، رستم شاہ مہمند کا کہنا تھا کہ ’جب طالبان آئے تو وہاں موجود پولیس اور فوج کے ادارے ختم ہو گئے، اور ان کی جگہ طالبان سے منسلک رضاکاروں نے کام کرنا شروع کر دیا۔‘
’یہ افراد اتنے تربیت یافتہ نہیں ہیں کہ سارے ملک میں ٹی ٹی پی کے پیچھے بھاگتے پھریں لیکن جیسے ہی طالبان مضبوط ہوں گے وہ ٹی ٹی پی کے حوالے سے فیصلہ کن اقدامات کریں گے۔ ویسے بھی پاکستان کوچاہیے کہ اس حوالے سے ان کے ساتھ انٹیلیجنس شیئرنگ کریں اور مل کر کام کرے لیکن ہم بس رعب جھاڑتے رہتے ہیں۔‘  

شیئر: