پاکستان میں گزشتہ ایک مہینے سے بجلی کی چوری روکنے کے لیے ملک بھر میں متعلقہ کمپنیاں ضلعی حکومتوں اور پولیس کی مدد سے آپریشن کر رہی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک دس ارب روپے سے زائد کی ریکوری کی جا چکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 500 ارب سے زائد کی بجلی چوری کی جاتی ہے اور بجلی چوروں کا دائرہ کراچی سے خیبر تک وسیع ہے۔ ایسے میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو خاص طور پر اس ریڈار میں لایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کیا پاکستان میں بجلی چوری روکنے کے نئے طریقے کامیاب ہو جائیں گے؟Node ID: 792321
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور اور اس کے اضلاع میں اب تک 16 ہزار سے زائد ایسے میٹر پکڑے گئے ہیں جن سے بجلی چوری کی جا رہی تھی۔
ترجمان لیسکو کے مطابق اب تک کئی بااثر افراد کو بھی بجلی چوری کرتے پکڑا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’کئی سابق ایم این ایز اور ایم پی ایز، ڈاکٹرز اور کاروباری افراد بجلی چوری کرتے پکڑے گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سابق ایم پی اے عزیز الرحمان چن لیسکو کے 60 کروڑ روپے کے نادہندہ تھے۔ ان کا کولڈ سٹوریج سیل کر کے ان سے بل وصول کیا جا رہا ہے۔‘
ترجمان لیسکو کے مطابق سابق ایم پی اے مہر سعید ظفر، قصور میں مسلم لیگ ن کی ضلعی صدر صفیہ سعید بھی بجلی چوری کرتے پکڑے گئے جن کو بھاری جرمانہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح گنگا رام ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹ عامر سلیم بھی بجلی چوری کے مرتکب ہوئے ان کا بجلی کا کنکشن کاٹ دیا گیا ہے۔
کوئین میری کالج کے ہاسٹلز اور کینٹین کو بھی چوری کی بجلی فراہم کی جا رہی تھی، ان پر بھی بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف لیسکو نے گزشتہ 35 دنوں میں سوا دو ارب روپے ریکور کیے ہیں۔
