Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجلی چوری کے خلاف آپریشن: کن طاقتور افراد پر ہاتھ ڈالا جا رہا ہے؟ 

متعلقہ کمپنیوں کے مطابق بجلی چوری روکنے کے لیے بلا امتیاز آپریشن کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں گزشتہ ایک مہینے سے بجلی کی چوری روکنے کے لیے ملک بھر میں متعلقہ کمپنیاں ضلعی حکومتوں اور پولیس کی مدد سے آپریشن کر رہی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک دس ارب روپے سے زائد کی ریکوری کی جا چکی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 500 ارب سے زائد کی بجلی چوری کی جاتی ہے اور بجلی چوروں کا دائرہ کراچی سے خیبر تک وسیع ہے۔ ایسے میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ اثر و رسوخ رکھنے والے افراد کو خاص طور پر اس ریڈار میں لایا گیا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور اور اس کے اضلاع میں اب تک 16 ہزار سے زائد ایسے میٹر پکڑے گئے ہیں جن سے بجلی چوری کی جا رہی تھی۔
ترجمان لیسکو کے مطابق اب تک کئی بااثر افراد کو بھی بجلی چوری کرتے پکڑا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’کئی سابق ایم این ایز اور ایم پی ایز، ڈاکٹرز اور کاروباری افراد بجلی چوری کرتے پکڑے گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سابق ایم پی اے عزیز الرحمان چن لیسکو کے 60 کروڑ روپے کے نادہندہ تھے۔ ان کا کولڈ سٹوریج سیل کر کے ان سے بل وصول کیا جا رہا ہے۔‘
ترجمان لیسکو کے مطابق سابق ایم پی اے مہر سعید ظفر، قصور میں مسلم لیگ ن کی ضلعی صدر صفیہ سعید بھی بجلی چوری کرتے پکڑے گئے جن کو بھاری جرمانہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح گنگا رام ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹ عامر سلیم بھی بجلی چوری کے مرتکب ہوئے ان کا بجلی کا کنکشن کاٹ دیا گیا ہے۔
کوئین میری کالج کے ہاسٹلز اور کینٹین کو بھی چوری کی بجلی فراہم کی جا رہی تھی، ان پر بھی بھاری جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف لیسکو نے گزشتہ 35 دنوں میں سوا دو ارب روپے ریکور کیے ہیں۔

بجلی چوری کے خلاف آپریشن میں 10 ارب سے زائد کی ریکوری کی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں کُل 12 بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ وزارت توانائی کی طرف سے شروع کیا جانے والا حالیہ بجلی چوری کے خلاف آپریشن اس سے پہلے کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ پنجاب میں دوسرے نمبر پر ملتان ڈویژن ہے جہاں سے اب تک سوا ارب روپے کی ریکوری ہو چکی ہے۔ 
خیال رہے کہ نگران وفاقی وزیر برائے توانائی محمد علی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، ملتان اور اسلام آباد میں ریکوری بہتر ہے جبکہ پشاور، حیدرآباد، سکھر، کوئٹہ اور آزاد جموں و کشمیر میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو 60 فیصد نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا تاہم اب صورت حال میں بڑی حد تک بہتری آئی ہے۔ 
پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک نو ہزار سے زائد غیر قانونی کنکشنز کاٹے جا چکے ہیں جبکہ ساڑھے تین ہزار افراد کے خلاف مقدمات بھی درج ہو چکے ہیں۔ جبکہ اب تک 30 کروڑ روپے سے زائد کی ریکوری بھی کی گئی ہے۔ 
کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی نے اب تک پانچ ہزار سے زائد غیر قانونی کنیکشن کاٹے ہیں جبکہ دس کروڑ روپے سے زائد کی ریکوری کی ہے۔
تمام کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ آپریشن بلا امتیاز کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف ایسی اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ وزارت توانائی ایف آئی اے کے افسران کو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں تعینات کرنے جا رہی ہے تاکہ بجلی چوروں کے خلاف جاری آپریشن کو مزید فعال کیا جا سکے.

شیئر: