Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’باپ‘ کے رہنما نواز شریف کے استقبال کے لیے لوگ کیوں جمع کر رہے ہیں؟

پاکستان آمد کے بعد نواز شریف لاہور میں مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب کریں گے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر استقبال کے لیے ان کی اپنی جماعت کی جانب سے تیاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس کے ساتھ ہی بلوچستان میں ماضی میں مسلم لیگ ن کی حکومت گرانے والی بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) کے سابق قومی و صوبائی ارکان اسمبلی بھی نواز شریف کے استقبال کی تیاریوں میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔
باپ پارٹی (بی اے پی) کے سابق پارلیمنٹیرینز زیارت، لورالائی، لسبیلہ، نصیر آباد، جعفر آباد سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں سے اپنے حامیوں کو لاہور بھیج رہے ہیں۔
اس حوالے سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ بی اے پی کے سابق ارکان صوبائی اسمبلی کیوں نواز شریف کا استقبال کر رہے ہیں؟
میاں نواز شریف تقریباً چار سال کی خودساختہ جلاوطنی کے بعد 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آ رہے ہیں۔ ان کے استقبال کے لیے مسلم لیگ ن نے لاہور میں مینارِ پاکستان کے گراؤنڈ میں استقبالیہ جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت نے ملک بھر سے پارٹی کے سابق ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو اہداف دے رکھے ہیں کہ وہ بسیں بھر کر لوگوں کو لاہور پہنچائیں۔
بلوچستان سے بھی مسلم لیگ ن کے عہدے داروں کو پارٹی کارکنوں کو لاہور لانے کا ہدف دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر اور سابق صوبائی وزیر شیخ جعفر خان مندوخیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بلوچستان سے لاہور کے لیے قافلوں کی روانگی شروع ہو گئی ہے۔‘
’چاغی، خضدار، قلات اور سوراب سے قافلے روانہ ہو چکے ہیں جبکہ کوئٹہ، ژوب، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، نصیر آباد، جعفرآباد، بولان، سبی اور دیگر علاقوں سے جمعہ کے روز مزید قافلے روانہ ہوں گے۔‘
جعفر مندوخیل نے دعویٰ کیا کہ ’بلوچستان سے سات سے آٹھ ہزار کارکن میاں نواز شریف کے استقبال کے لیے لاہور پہنچیں گے۔‘

نواز شریف کے استقبال کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے کئی رہنما متحرک ہو گئے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

مسلم لیگ ن کے عہدے داروں اور رہنماؤں کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ میاں نواز شریف کے استقبال کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کے کئی رہنما اور سابق ارکان اسمبلی بھی پیش پیش دکھائی دے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں بی اے پی سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر خزانہ نُور محمد دُمڑ کی ایک آڈیو بھی لیک ہوئی ہے۔
اس آڈیو میں وہ اپنے حامیوں کو اپنے حلقۂ انتخاب زیارت اور سنجاوی سے لوگوں کو جمع کرنے اور گاڑیوں کا بندوبست کرنے کی ہدایت دے رہے ہیں۔
اس آڈیو لیک میں وہ کہتے ہیں کہ ’ابھی تک ن لیگ میں شمولیت کا ارادہ تو نہیں مگر یہ (لوگوں کو لاہور بھیجنا) ہمارا اُن پر احسان ہو گا۔‘
نصیر آباد سے تعلق رکھنے والے لہڑی برادران نے تو علی الاعلان سابق وزیراعظم نواز شریف کے استقبال کے لیے قافلے لاہور بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔
سابق صوبائی وزیر محمد خان لہڑی اور ان کے بڑے بھائی سابق صوبائی وزیر عبدالغفور لہڑی کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔
عبدالغفور لہڑی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم نے ابھی تک ن لیگ میں شمولیت اختیار نہیں کی لیکن ان سے بات چیت ضرور ہوئی ہے۔‘

باپ پارٹی کے رہنما نواز شریف کے استقبال کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کی ہدایت دے رہے ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کی قیادت نے ہم سے کارکنوں کو بھجوانے کا نہیں کہا بلکہ لوگ اپنی مرضی سے جمع ہو رہے ہیں اور سابق وزیراعظم سے اظہارِ یکجہتی کے لیے درجنوں گاڑیوں پر مشتمل قافلے لاہور بجھوا رہے ہیں۔‘
عبدالغفور لہڑی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم قومی رہنما اور بلوچستان کے لیے خدمات کی وجہ سے میاں نواز شریف کا شاندار استقبال کرنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جعفر آباد سے سابق سپیکر بلوچستان اسمبلی جان جمالی سمیت بی اے پی کے کئی دیگر رہنما بھی قافلے لاہور بجھوا رہے ہیں۔‘
ذرائع کے مطابق سابق وزیراعلٰی بلوچستان اور بی اے پی کے سابق سربراہ جام کمال خان، سابق صوبائی وزیر عاصم کُرد گیلو نواز شریف کے استقبال کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
محمد خان طور اتمان خیل اور سردار مسعود لونی سمیت بی اے پی کے کئی سابق ارکانِ صوبائی اسمبلی بھی اپنے حامیوں کو لاہور بجھوانے کے لیے اکٹھا کر رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بی اے پی کے یہ رہنما مسلم لیگ ن کی مرکزی اور صوبائی قیادت سے رابطے میں ہیں اور انہیں اپنی تیاریوں سے بھی آگاہ کر رہے ہیں۔

جعفر مندوخیل کے بقول جام کمال سمیت بی اے پی کے کئی رہنما جلد ن لیگ میں شامل ہو جائیں گے۔ (فائل فوٹو: جام کمال ٹوئٹر)

نواز شریف کے استقبال کے حوالے سے عبدالرحمان کھیتران سمیت بی اے پی کے بعض دیگر رہنماؤں کے بینرز اور پوسٹرز بھی مختلف شہروں میں لگائے گئے ہیں۔
بی اے پی کے سابق ترجمان عبدالرحمان کھیتران نے وضاحت کی کہ پوسٹرز پر ان کی تصاویر ان کی مرضی کے بغیر لگائی گئی ہیں۔
 
جمعیت علماء اسلام بلوچستان کے امیر سابق وفاقی وزیر مولانا عبدالواسع نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’لگتا ہے بلوچستان میں باپ کو ن لیگ میں تبدیل کردیا جائے گا۔‘

کیا پارٹی قائد کے استقبال کے لیے مسلم لیگ ن بی اے پی کے رہنماؤں کی مدد لے رہی ہے یا معاملہ کچھ اور ہے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ ن بلوچستان کے صدر شیخ جعفر مندوخیل نے بتایا کہ ’میاں نواز شریف کے استقبال اور ان کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی کی مدد لینے کا تاثر درست نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’نُور محمد دُمڑ اور لہڑی برادران سمیت جو رہنما قافلے بجھوا رہے ہیں، وہ سب مسلم لیگ ن میں شامل ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک باقاعدہ اور رسمی طور پر شمولیت کا اعلان نہیں کیا۔‘
جعفر مندوخیل کے بقول ’دو ستمبر کو شہباز شریف کی جانب سے دیے گئے عشائیے میں سابق صوبائی وزرا محمد خان طور اتمان خیل، سردار مسعود لونی، عاصم کُرد گیلو مسلم لیگ ن میں شامل ہو چکے ہیں۔‘
’ان کے علاوہ شعیب نوشیروانی سمیت 12 سے زیادہ دیگر الیکٹ ایبلز بھی مسلم لیگ ن کا حصہ بن گئے تھے جنہوں نے بعد میں کوئٹہ میں ہونے والے اجتماع میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تمام شخصیات جلد کوئٹہ میں مجوزہ جلسے میں مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کریں گی۔
’سابق وزیراعلٰی جام کمال خان، جان محمد جمالی، سردار عبدالرحمان کھیتران سمیت بلوچستان عوامی پارٹی کے کئی دیگر رہنما بھی جلد ن لیگ میں شامل ہو جائیں گے۔

شیئر: