Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا نواز شریف کو بائیومیٹرک تصدیق کے لیے خصوصی سرکاری سہولت دی گئی؟

نواز شریف کی بائیو میٹرک تصدیق کروانے کی اطلاعات اور تصاویر سامنے آئیں تو سوالات گردش کرنا شروع ہو گئے (فوٹو: پی ایم ایل این ایکس)
سابق وزیراعظم نواز شریف سنیچر کو جب اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچے تو انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنی اپیلوں کی بحالی کے لیے متعدد دستاویزات پر دستخط کیے اور اس دوران اپنی بائیومیٹرک تصدیق بھی کروائی۔ 
پاکستان میں زیادہ تر سرکاری کاموں کے لیے اب بائیومیٹرک تصدیق ضروری ہوتی ہے اور بالخصوص عدالتوں میں درخواست دائر کرنے کے لیے اس کو اہم تصور کیا جاتا ہے۔ 
یہ تصدیق ہائی کورٹ میں موجود عملے یا کسی بھی دوسری جگہ سے نادرا سے منسلک نظام کے ذریعے کروا کر متعلقہ حکام کے پاس جمع کروائی جا سکتی ہے۔    
تاہم سنیچر کو نواز شریف کی بائیومیٹرک تصدیق کروانے کی اطلاعات اور تصاویر سامنے آئیں تو سوالات گردش کرنا شروع ہو گئے کہ ایک سزا یافتہ شخص کو ایئرپورٹ پر یہ خصوصی سرکاری سہولت کیسے فراہم کی جا سکتی ہے۔ 
اس سلسلے میں نادرا کے ایک اعلٰی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’بظاہر جو مشین نواز شریف کی بائیومیٹرک تصدیق کے لیے استعمال کی گئی وہ نادرا کی نہیں تھی۔‘
نادرا عہدیدار کے مطابق بائیومیٹرک کا نظام نادرا کے تحت ضرور ہے، لیکن اس کو پاکستان کے کئی ادارے خود استعمال کر رہے ہیں اور نادرا نے ان کو نظام تیار کر کے دے دیا ہے جس کے بعد وہ خود تصدیق کا یہ عمل کرتے ہیں۔ 
یہ نظام لاتعداد نجی کاروباری افراد کے پاس بھی موجود ہے جو کچہریوں یا عام گلی محلوں میں ایک مخصوص فیس کے عوض لوگوں کو شناختی تصدیق فراہم کرتے ہیں۔ 
نادرا کے ایک ترجمان نے اس سلسلے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’بائیومیٹرک تصدیق کرنے والی ٹیم کو ہدایت دینے میں نادرا کا کوئی کردار نہیں ہے۔‘
نادرا ترجمان نے مزید کہا کہ ’ایسی ٹیمیں متعلقہ عدالتوں کی ہدایات پر کام کرتی ہیں۔‘ 
تاہم کورٹ رپورٹنگ کرنے والے اسلام آباد کے سینیئر صحافی ثاقب بشیر کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا کہ نواز شریف کی بائیومیٹرک تصدیق کے لیے کوئی ٹیم ایئرپورٹ جائے۔ 

جب عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا تو وہ اس وقت بائیومیٹرک تصدیق کروا رہے تھے (فائل فوٹو: روئٹرز)

انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہائی کورٹ نے یہ حکم ضرور دیا تھا کہ بائیومیٹرک تصدیق کہیں سے بھی کروا کے عدالت میں جمع کروائی جا سکتی ہے۔ 
ثاقب بشیر کے مطابق ماضی میں عمران خان اور بشریٰ بی بی نے بھی گھر سے بائیومیٹرک تصدیق کروا کر رسید عدالت روانہ کی تھی۔ 
تاہم یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ جب عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتار کیا گیا تو وہ اس وقت وہاں موجود سرکاری کاؤنٹر سے بائیومیٹرک تصدیق کروا رہے تھے۔ 
ثاقب بشیر کے مطابق نادرا کے انکار اور ہائی کورٹ کے حکم نامے کی عدم موجودگی کی وجہ سے یہ الجھن برقرار ہے کہ نواز شریف کی بائیومیٹرک تصدیق سرکاری حکام کی جانب سے کی گئی یا کسی نجی کمپنی کی جانب سے جس نے نادرا سے اس عمل کی تصدیق کا اجازت نامہ حاصل کر رکھا ہو۔ 
اس بارے میں نادرا کے سینیئر افسر کا کہنا تھا کہ ’بظاہر یہ امکان ہے کہ اس عمل کے لیے کوئی نجی مشین استعمال کی گئی ہے۔‘
اس بارے میں مسلم لیگ ن کا موقف جاننے کے لیے ان کی قانونی ٹیم کے سربراہ اعظم نذیر تارڑ سے رابطہ کیا گیا، لیکن نواز شریف کے استقبال کی مصروفیت کی وجہ سے ان کا فون نمبر مسلسل منقطع رہا۔ 

شیئر: