Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں بری کر دیا

نیب آرڈیننس کے بعد نومبر 2022 میں اسحاق ڈار کے خلاف کیس بند ہو گیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مسلم لیگ ن کے رہنما اسحاق ڈار کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں بری کر دیا ہے۔
پیر کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے اسحاق ڈار کو بری کرنے کا فیصلہ سنایا۔
اس سے قبل پیر کی صبح کو جب کیس کی سماعت ہوئی تو نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اسحاق ڈار کے خلاف کرپشن کا ثبوت نہیں ملا، کیس مزید نہیں چلایا جا سکتا جس پر عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے تحریری جواب طلب کیا تھا۔
جج محمد بشیر نے کہا کہ ’نیب پراسیکیوٹر جنرل اس نکتے پر تحریری طور پر لکھ کر دیں، اور اگر اسحاق ڈار سمیت دیگر ملزمان کی بریت پر اعتراض نہیں تو بھی لکھ کر دے دیں، کل کو نیب کہے کہ ہم نے تو ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔‘
اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر افضل قریشی نے بیان دیا کہ ہم نے میرٹ پر دلائل دیے ہیں، عدالت فیصلہ سنا دے۔
جس پر جج محمد بشیر نے کہا کہ آپ بیان تحریری طور پر لکھ کر دے دیں، ایک بجے فیصلہ سنائیں گے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں اسحاق ڈار کو بری کر دیا۔
نیب آرڈیننس میں ترمیم اور سپریم کورٹ کا فیصلہ
نیب آرڈیننس میں ترمیم کے بعد احتساب عدالت نے نومبر 2022 میں اسحاق ڈار کے خلاف کیس بند کر دیا تھا۔
اسحاق ڈار کے خلاف کیس کا ریکارڈ احتساب عدالت میں ہی موجود تھا تاہم سپریم کورٹ کی جانب سے ترامیم کالعدم قرار دینے کے بعد کیس بحال کر کے عدالت نے اسحاق ڈار کو نوٹس جاری کر دیے تھے۔ 
جس وقت اس ریفرنس پر کارروائی روکی گئی تھی اس وقت عدالت نے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کی تین درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا ہوا تھا۔ جن میں پہلی درخواست میں حاضری سے مستقل استثنا کی استدعا کی تھی، جبکہ دوسری درخواست میں اثاثہ جات کی ڈی اٹیچمنٹ اور تیسری درخواست میں بریت کی استدعا کی گئی تھی۔ 
عدالت نے ان درخواستوں پر فیصلہ سنانا تھا تاہم نیب آرڈینینس میں ترمیم کے بعد عدالت نے کارروائی روک دی تھی۔  

نیب نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدنی میں اضافے سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی۔ فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید کی درخواست پر 28 جولائی 2017 کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف 3 اور اس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔ 
نیب ریفرنس میں اسحاق ڈار پر الزامات
نیب نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدنی میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ اسٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگز، کیونٹ ایٹن پلیس، کیونٹ سولین لمیٹڈ، کیونٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ، کومبر انکارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی۔
اس کے بعد اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کیا گیا۔ 
اسحاق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی تھی۔ یہ دفعہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے۔ جس کی تصدیق ہونے کے بعد 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ 
اسحاق ڈار کے خلاف ریفرنس میں نیب نے الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے اپنے نام پر یا ان پر انحصار کرنے والے افراد کے نام پر اثاثے اور مالی فوائد حاصل کر رکھے ہیں، جن کی مالیت 83 کروڑ 16 لاکھ 78 ہزار روپے ہے۔ 
ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کے اثاثہ معلوم ذرائع سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ عدالت نے 14 نومبر 2017 کو ریفرنس کے حوالے سے اسحاق ڈار کے بیٹے کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔ 
عدالت نے اسحاق ڈار کو مذکورہ کیس میں ٹرائل میں پیش ہونے سے ناکامی پر 11 دسمبر 2017 کو مفرور قرار دے دیا گیا تھا۔ 
گزشتہ سال اسحاق ڈار نے خود کو عدالت کے سامنے سرنڈر کیا تھا۔ ضمانت منظور ہونے کے بعد اسحاق ڈار ایک بار پھر وزیر خزانہ بن گئے تھے۔ 

شیئر: