اس بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سینٹرز اسلام آباد کے علاوہ صوبوں، کشمیر اور جی بی میں بنائے گئے ہیں۔
’وہاں میڈیکل اور کھانے کی سہولتیں دستیاب ہوں گی اور انہیں وہاں عزت و احترام سے رکھا جائے گا اور وہیں سے واپس بھیجا جائے گا۔‘
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’تمام تحقیقات ہو چکی ہیں۔ہمیں معلوم ہے کہ ملک کے کس کس علاقے میں کتنے افراد غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ پہلے مرحلے میں ان افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی جن کے پاس کسی قسم کی دستاویزات موجود نہیں۔ اس کے بعد مرحلہ وار کام ہو گا۔
افغان شہریوں کی جانب سے پاکستانی شناختی کارڈ بنوائے جانے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کی تحقیقات ہو رہی ہیں اور اس میں جو لوگ بھی ملوث ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے سکیورٹی کے ایک معاملے کو کسی خاص قومیت سے منسلک کیا جا رہا ہے۔
’ہمارے ہاں سب سے زیادہ افغان شہری غیرقانونی طور پر مقیم ہیں، اب میں برازیل کا نام تو نہیں لے سکتا۔‘
نگراں وزیر داخلہ نے غیرقانونی طور پر مقیم لوگوں سے ایک بار پھر اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ ڈیڈلائن سے قبل رضاکارانہ طور پر چلے جائیں۔
ان کے مطابق ’رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑنے والوں کو مشکلات کا سامنا نہیں ہو گا جنہیں بھجوایا جائے گا انہیں مشکلات کا سامنا ہو گا۔‘
سرفراز بگٹی نے یہ وضاحت بھی کی کہ ملک سے جانے والے غیرملکیوں کو 50 ہزار سے زائد روپے، کسی بھی کرنسی کے متبادل کے طور پر بھی، کیش لے جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔
’اس سے زیادہ رقم بینک کے ذریعے بھیجی جا سکتی ہے لیکن وہ بعد کا معاملہ ہے۔‘
نگراں وزیر داخلہ نے یہ وضاحت بھی کی کہ ڈیڈلائن صرف افغانستان کے غیرقانونی شہریوں کے لیے نہیں ہے بلکہ کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والے غیرملکی سے ہے۔
انہوں نے دوسرے ممالک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کہیں غیرقانونی لوگ مقیم ہوں تو وہاں کی حکومت کیا ان کو نہیں پکڑے گی۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ غیرقانونی طور پر مقیم افراد کی سہولت کاری اور معاونت کرنے والوں کو بھی نہیں چھوڑا جائے گا اور ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔
سرفراز بگٹی نے کہا کہ اگر کوئی ہمارے ملک میں آنا، رہنا یا کاروبار کرنا چاہتا ہے تو وہ قانون کے مطابق ویزہ لگوا کر اور دوسرے ضروری معاملات پورے کر کے آئے. ہم مہمان نوازی کریں گے۔