Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’افغانستان میں فن کوخطرہ‘، ملک بدری روکنے کے لیے افغان فنکاروں کا عدالت سے رجوع

افغان موسیقاروں نے موقف اپنایا کہ ’افغانستان واپس جانا ان کی زندگی کے لیے خطرناک ہے‘ (فائل فوٹو:اے ایف پی)
فنکاروں کی تنظیم ’ہُنری ٹولونہ‘کے مطابق ’یکم نومبر کی ڈیڈلائن سے پہلے 15 افغان فنکاروں کو گرفتار کرکے زبردستی افغانستان ڈی پورٹ کردیا گیا ہے۔‘ 
پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کی وطن واپسی کی ڈیڈلائن کے قریب آتے ہی خیبر پختونخوا میں افغان فنکاروں کو وطن واپس کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔
ان فنکاروں نے وفاقی حکومت اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے وطن واپس نہ بھیجنے کی درخواست کی ہے۔
افغان فنکاروں نے اس معاملے پر عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا اور منگل کو پشاور ہائی کورٹ میں ایک رٹ بھی دائر کی۔
اس درخواست میں افغان فنکاروں نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ’انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے زبردستی افغانستان بے دخل کرنے سے روکا جائے۔‘
فنکاروں نے موقف اپنایا کیا کہ ’افغانستان میں اماراتِ اسلامی کی حکومت ہے اور وہاں موسیقی پر مکمل پابندی عائد ہے، لہٰذا وہ اپنے فن کو وہاں جاری نہیں رکھ سکتے۔’
افغان فنکاروں نے درخواست میں یہ استدعا بھی کی کہ وہ اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ساتھ ٹوکن کے ذریعے رجسٹرڈ ہیں لہٰذا انہیں زبردستی بے دخل نہ کیا جائے۔
ان فنکاروں کی جانب سے دائر کردہ کیس میں وفاقی حکومت، وفاقی وزارتِ داخلہ، نادرا، ڈی جی امیگریشن اور ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا ہے۔  
افغان موسیقاروں نے موقف اپنایا کہ ’افغانستان واپسی ان کے زندگی کے لیے خطرہ ہے اور وہ اپنے فن کو زندہ رکھنے کے لیے پاکستان میں ہی رہنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’وفاقی حکومت صرف افغان فنکاروں کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے کیونکہ وطن واپس جا کر ہمارے لیے عام آدمی کی طرح زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جائے گا۔‘ 

فنکاروں کے مطابق ’افغان حکومت نے موسیقی پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے، لہٰذا وہ اپنے فن کو وہاں جاری نہیں رکھ سکتے‘ (فائل فوٹو:اے ایف پی)

پشتو فنکاروں کی تنظیم ’ہُنری ٹولونہ‘ کے مرکزی چیئرمین راشد خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت 150 سے زائد افغان موسیقار اور اداکار خیبر پختونخوا میں غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔‘
’یہ افراد چونکہ اماراتِ اسلامی کی حکومت آنے کے بعد اپنی جان بچا کر پاکستان آئے تھے لہٰذا ان کے پاس کوئی سفری دستاویزات موجود نہیں ہیں۔‘
’ہُنری ٹولونہ‘ نے مؤقف اپنایا کہ ’اب یہ افراد افغانستان واپس بھی نہیں جا سکتے، اگر اب ان فنکاروں کو واپس بھیجا گیا تو یہ ان کی زندگی کے ساتھ ان کے فن کے لیے بھی خطرہ ہوگا۔‘  
موسیقار راشد خان کے مطابق ڈیڈلائن سے پہلے کریک ڈاؤن کرکے افغان آرٹسٹوں کو تنگ کیا جا رہا ہے اور اب تک 15 افغان فنکار ڈی پورٹ کیے جا چکے ہیں، جبکہ پانچ کو کراچی سے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔‘
پشتو موسیقار راشد خان کا کہنا تھا کہ ’فنکاروں کے لیےکوئی سرحد نہیں ہوتی ہے، وہ اپنے فن کے ذریعے امن اور محبت کا پیغام پہنچاتے ہیں، ان کے تحفظ کے لیے ان کا پاکستان میں رہنا ضروری ہے۔‘

پشاور پولیس کا کہنا ہے کہ ’ابھی تک کسی افغان باشندے کو گرفتار کیا نہ ہی 31 اکتوبر تک کسی کو تنگ کیا جائے گا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پولیس کا موقف 
پشاور کے ایس ایس پی آپریشنز کاشف آفتاب عباسی نے اردو نیوز کو موقف دیتے ہوئے بتایا کہ ’پولیس نے ابھی تک کسی افغان باشندے کو گرفتار نہیں کیا اور نہ ہی 31 اکتوبر تک کسی کو تنگ کیا جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یکم نومبر کو حکومت کی دی گئی ڈیڈلائن مکمل ہونے کے بعد پولیس ریاست کی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے کارروائی کرے گی۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’پشاور میں غیرقانونی طور رہائش پذیر غیرملکیوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے تاکہ ڈیڈلائن کے بعد اس کی مدد سے اِن کی بے دخلی کا مرحلہ شروع کیا جاسکے۔

شیئر: