جعلی پاسپورٹ، اعلیٰ ایوانوں تک رسائی، افغان شہریوں کیخلاف تحقیقات
جعلی پاسپورٹ، اعلیٰ ایوانوں تک رسائی، افغان شہریوں کیخلاف تحقیقات
بدھ 25 اکتوبر 2023 11:03
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
پاکستان کی حکومت نے غیرقانونی پناہ گزینوں کو پاکستان سے نکلنے کے لیے یکم نومبر کی ڈیڈلائن دی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
23 اکتوبر کو نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی پریس کانفرنس کے دوران اس وقت صورتحال دلچسپ ہو گئی جب ایک صحافی سے ان کی اس بات پر بحث ہوئی کہ پاکستان کے کچھ پارلیمنٹیرینز بھی افغان نژاد ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران مقامی صحافی نے نام لیے بغیر سوال کیا کہ وہ ایسے سینیٹرز کو جانتے ہیں جن کو نگراں وزیراعظم بھی قریب سے جانتے ہیں اور وہ افغان نژاد ہیں، کیا غیر ملکیوں کے خلاف آپریشن کے دوران ان کو بھی نکالا جائے گا؟
اس سوال کے جواب میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ’وہ ان پارلیمنٹیرینز کو پچپن سے جانتے ہیں اور وہ غیرملکی نہیں ہیں۔ جس کے بعد ان کی صحافی سے بحث شروع ہو گئی جس دوران انہوں نے یہ بھی پیشکش کی کہ وہ اس مسئلے پر ان کے ساتھ سپریم کورٹ جانے کو تیار ہیں۔‘
پاکستان میں افغان شہریوں کے اثرورسوخ کا موضوع نیا نہیں ہے اور اس سے قبل بھی اس طرح کی باتیں سامنے آتی رہی ہیں کہ بااثر افغان پاکستان کے اعلٰی ایوانوں تک رسائی رکھتے ہیں۔ تاہم موجودہ صورتحال میں جب پاکستان کی وفاقی حکومت غیرقانونی تارکین وطن بالخصوص افغان نژاد باشندوں کے خلاف آپریشن کی تیاری کر رہی ہے اس مسئلے کا دوبارہ ذکر دلچسپی سے بھرپور ہے۔
حال ہی میں کچھ دوست ممالک کی جانب سے حکومت پاکستان کو آگاہ کیا گیا کہ ان کے پاس موجود ہزاروں افغان باشندے پاکستانی پاسپورٹ استعمال کر رہے ہیں اور بیشتر اوقات جب ان سے تفتیش کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ درحقیقت وہ افغان شہری ہیں اور پاکستانی پاسپورٹ استعمال کر رہے ہیں۔
اس اطلاع کے بعد پاکستانی حکومت نے وسیع البنیاد تحقیقات کا آغاز کیا ہے جس میں غیر ملکیوں کے پاکستانی پاسپورٹ اور پاکستانیوں کے جعلی یا دیگر ممالک کی دستاویزات استعمال کرنے کی چھان بین بھی کی جا رہی ہے۔
اردو نیوز کے استفسار پر وفاقی حکومت کے حکام نے بتایا ہے کہ اس معاملے کے متعلق اہم انکشافات ہوئے ہیں جن کی تفصیلات جلد منظر عام پر لائی جائیں گی۔
پاکستانی شہریوں کا افغان پاسپورٹ کا استعمال
حکام کے مطابق یہ شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ کچھ اعلٰی پاکستانی عہدیدار بھی افغان پاسپورٹ یا دیگر دستاویزات استعمال کرنے میں ملوث رہے ہیں اور اس کے متعلق بھی چھان بین ہو رہی ہے۔
اعلٰی سطحی ذرائع کے مطابق متعلقہ حکومتی ادارے اس بارے میں تمام شواہد اکٹھے کر رہے ہیں اور واضح ثبوت حاصل ہونے کے بعد ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
ان تحقیقات کے متعلق نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (ںادرا) جو کہ پاکستان میں شہریوں کے اندراج کا ذمہ دار ہے، کے ایک ترجمان نے بتایا کہ نگران وزیراعظم اس بارے میں واضح طور پر بات کر چکے ہیں۔
ترجمان کے مطابق نادرا کسی شخص کی شناخت کے متعلق ہونے والی تحقیقات کے بارے میں معلومات عوامی سطح پر جاری نہیں کرتا تاہم اس معاملے پر پیشرفت ہونے پر حکومتی سطح پر اس بارے میں تفصیلات فراہم کرنے کا جائزہ لیا جائے گا۔
نوکری اور کاروبار کے لیے سرحد پار آباد ہونے کا رواج
تاہم افغانستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر سکیورٹی تجزیہ کار اور پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز (پپس) کے ڈائریکٹر عامر رانا کے مطابق پہلے بھی کچھ افراد کے بارے میں اس طرح کی تحقیقات ہو چکی ہیں۔
’سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے بھی اس معاملے کی تحقیق کی تھی۔ لیکن یہ مسئلہ کافی قانونی پیچیدگیاں لیے ہوئے ہے۔‘
عامر رانا نے بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بہت سے لوگ نوکریوں یا کاروبار کے لیے آر پار جاتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ برطانوی دور سے چلا آ رہا ہے جس کی وجہ سے کہیں نہ کہیں قانونی موشگافیاں موجود ہیں۔
’قلعہ عبداللہ اور چمن، سپین بولدک اور ایک دو اور جگہوں پر ابھی تک بغیر دستاویزات کے ساتھ سفر ہوتا رہا ہے، بعد ازاں آر پار جانے کے لیے صرف شناختی کارڈ دکھانا کافی ہوتا تھا۔ یہ سلسلہ اتنا عام ہے کہ سرحدی علاقوں کے لوگ ایک دوسرے کو اپنے ہاں نوکریوں اور کاروبار کی پیشکش کر کے دوسرے ملک میں رہائش اختیار کرنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس لیے یہ ایک طرح کا رواج بن گیا ہے کہ پرانے وقتوں سے ان علاقوں کے لوگ جس ملک میں بہتر مواقع ملتے ہیں وہاں رہائش پذیر ہو جاتے ہیں اور ایسا کرنا قانونی سمجھتے ہیں۔‘
عامر رانا کے خیال میں اگر تحقیقات میں کچھ افراد کے بارے میں پتہ چل بھی گیا کہ انہوں نے دوسرے ملک کا پاسپورٹ استعمال کیا ہے یا شہریت حاصل کر کے کوئی اعلٰی عہدہ حاصل کیا ہے تو کوئی قانونی سقم ان کے خلاف کارروائی نہ ہونے کا باعث بن جائے گا۔
’اگر ہم اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان سرحدی علاقوں کے بارے میں بھی ایسی ہی قانون سازی کرنا پڑے گی جیسی ہم نے فاٹا کے اضلاع کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے کی ہے۔‘